کیا نووارد بیرسٹر گوہر PTI کا بلے کا نشان بچا پائیں گے؟

سینئر صحافی امتیاز عالم نے کہا ھے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ تحریک انصاف کے 2 دسمبر کے روز ہوئے ’’غائبانہ پارٹی انتخابات‘‘ کو قانونی جواز ملے گا بھی کہ نہیں۔ یقیناً الیکشن کمیشن کو ان ہنگامی پارٹی انتخابات ،جو ایک طرح کی غائبانہ نماز جنازہ تھی ،پر مہر ثبت کرنے میں دشواری ہوگی کیوں کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ برس کے انتخابات تو ان سے کہیں زیادہ ’’جمہوری و قانونی‘‘ تھے ۔ اب عمران بھی پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوئے ہیں، تو ابھی معلوم نہیں کہ نو وارد بیرسٹر گوہر بلے کا نشان بچا پائیں گے کہ نہیں۔ اپنے ایک کالم میں امتیاز عالم کہتے ہیں کہ اپنے انعقاد سے پہلے ہی مشکوک ھو چکے الیکشن 2024 کے شیڈول کے اعلان بارے ابہام تو دور ہوا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد کی تاریخ سے 56 روز قبل انتخابی شیڈول کا غالباً 14 دسمبر کے آس پاس اعلان کردیا جائے گا۔ ہفتے کے روز ہی تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات نہایت سرعت سے منعقد کیے جاچکے اور بیرسٹر گوہر کو، پارٹی کے روح رواں عمران کی نااہلی کے پیش نظر ،بلا مقابلہ منتخب کرلیا گیا ہے، جبکہ باقی عہدیداروں کو برقرار رکھا گیا ہے۔تاہم جس طرح پی ٹی آئی کے گزشتہ انتخابات کو خلاف ضابطہ قرار دیا گیا تھا، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ میدان سے غائب کی گئی تحریک انصاف کے گزشتہ روز ہوئے ’’غائبانہ پارٹی انتخابات‘‘ کو قانونی جواز ملے گا بھی کہ نہیں۔ جب مقصد ہی ایک پارٹی کو انتخابی میدان سے نکال باہر کرنا ہے تو پھر بلے کا نشان تلوار کی طرح بیلٹ پیپر سے غائب کرنا کوئی بڑا کام نہیں۔ اس گناہ کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پورے انتخابی عمل میں وسیع تر دھاندلیوں کے بے پناہ گناہوں سے بچا جاسکے گا۔ سوال تو پہلے ہی سے انتخابات کی شفافیت پر اٹھ کھڑا ہوا ہے،تو اک گناہ اور سہی۔ ویسے دیکھا جائے تو کس پارٹی کے انتخابات جمہوری ہوتے ہیں جن میں شفاف انتخابی قوانین کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ ایک آدھ استثنا کے سوا 176 رجسٹرڈ پارٹیوں کے انتخابات کے کہیں شواہد نہیں اور جن پارٹیوں نے اپنے انتخابات کے نتائج سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا ہے اور جنہیں شرف تصدیق بھی بخشا گیا ہے، انکے انتخابات کتنے جمہوری اور نمائندہ تھے۔
امتیاز عالم کے مطابق تمام پارٹیاں اپنے بانیان، موجدین، گھرانوں، شخصیات اور گروہوں کی مرہون منت ہیں اور انکا جمہوری عمل سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ جب سیاسی پارٹیاں ہی اپنے وصف میں غیر جمہوری اور آمرانہ ہیں یا پھر کسی خاندان یا شخصی طلسم کی مرہون منت تو جمہوری عمل میں عوام کی شرکت کے کیا معنی؟ اب پارٹی انتخابات کے بعد تحریک انصاف قانونی و آئینی جماعت ہونے کے باوجود انتخابات میں بطور سیاسی جماعت حصہ لے سکے گی یا نہیں، آئندہ دنوں میں واضح ہوجائے گا۔ اسکے رستے میں حائل بڑی رکاوٹ عوامی پذیرائی ہے جو اسے شرف قبولیت بخشنے میں حائل ہے۔ علم سیاسیات کی رو سے کئی اصناف کی سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں لیکن ہوتی سب کسی نہ کسی طبقے یا طبقات کے مفادات داعی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بڑی عوامی پارٹی منظم کی لیکن متبادل قیادت اُبھر نہ پائی اور پارٹی خاندانی ورثہ یا شاہی وراثت کی لپیٹ میں آگئی۔ ن لیگ آمریت کے بطن سے پیدا ہوئی اور بھٹو کے سوشل لبرل ازم کے خلاف اُبھرے دائیں بازو کے ردعمل پہ پروان چڑھ کر خاندانی لمیٹڈ کمپنی بن کے رہ گئی۔ تحریک انصاف عمران کی ذات کے گرد جمع ہوئی جو لاشریک رہا اور ان ہی پر کلی انحصار کے باوجود مائنس عمران پہ راضی ہوگئی کہ بلے کی نشانی تو برقرار رہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام جماعتیں، عوامی اور جمہوری امیدوں کو پورا کرنے کی بنیادی صفت سے محروم ہیں ۔
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ جو کچھ اب تحریک انصاف کے ساتھ ہورہا ہے اور یہ مائنس عمران پہ حقیقی طور پر نہ سہی رسمی طور پہ تو راضی ہوچلی ہے، پہلے بھی ہوتا آیا ہے۔ مائنس بھٹو کرنے کی کوشش ہوئی تو پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنی۔ 2018 کے انتخابات میں مائنس نواز شریف ہوا تو برادر خورد نے قیادت سنبھال کر بڑے بھائی کی سیاست کو رخصت پہ بھیج دیا بھلے وہ چوتھی بار وزیراعظم بنے یا نہ بنے۔ اب عمران بھی پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوئے ہیں، تو ابھی معلوم نہیں کہ نو وارد بیرسٹر گوہر بلے کا نشان بچا پائیں گے کہ نہیں۔ جہاں پارٹیوں کا یہ حال ہوجائے تو بی بی جمہوریت کے جمال کی بے توقیری نہیں ہوگی تو کیا ہوگا۔ ویسے بھی ہائبرڈ نظام کو مستقل کرنے کی اداراتی تیاری مکمل ہوچکی۔ اب اسکا لاڈلا یا لاڈلے کون ہونگے، اسکی میوزیکل گیم شروع ہوچکی جس سے جمہوریت پسندوں کو کیا غرض اور مہنگائی میں رُلے عوام کو کیا لینا دینا۔

Related Articles

Back to top button