معاشی بد حالی نے عوام کی چیخیں نکلوادیں، آٹا پہنچ سے باہر

تازہ ترین معاشی اشاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ تمام تر حکومتی دعووں کے برعکس پاکستانی معیشت تیزی سے تنزلی کی طرف گامزن ہے. ایک ہفتے میں ملکی مہنگائی کی شرح میں 20 فیصد سے زائد اضافہ دیکھا گیا ہے، ایک کلو آٹے کی قیمت 70روپے ہوجانے سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ ملکی اقتصادی صورتحال کے باعث ایک سال میں 31 فیصد پاکستانی ملازمتوں سے محروم چکے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت کو رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں 1922 ارب روپے کے تاریخی مالی خسارے کا سامنا ہے ۔ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ آٹا بھی عام عوام کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے اور اس کی قیمت 70 روپے فی کلو سے تجاوز کر چکی ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق جنوری 2020 کے دوسرے ہفتے کے دوران ہفت روزہ بنیاد پر مہنگائی میں اضافے کی اوسط شرح بیس اعشاریہ صفر دو فیصد رہی تاہم 30 ہزار روپے ماہانہ تک آمدنی والوں کے لیے قیمتوں میں اضافے کی شرح بائیس اعشاریہ پانچ فیصد ریکارڈ کی گئی ہے ۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں حکومتی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوری 2020 کے دوسرے ہفتے کے دوران آٹا،گھی، چکن، تمام دالوں،چاول سمیت کھانے پینے کی تمام 32 بنیادی اشیا گزشتہ سال سے 160 فیصد تک مہنگی فروخت ہوئیں جبکہ روز مرہ استعمال کی 17 بنیادی اشیا میں سے جوتوں کے سوا باقی تمام اشیا کی قیمتوں میں 37 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ روٹی کے علاوہ پاکستان میں کپڑا بھی مہنگا ہوگیا ہے۔ سال کے آغاز سے ہی عام استعمال کا کپڑا گزشتہ سال کے مقابلے میں 73 روپے سے 79 روپے فی میٹر تک مہنگا ہوا ہے۔ اسی طرح ایل پی جی کی فی کلو قیمت گزشہ جنوری سے 25 روپے زیادہ رہی، صابن 44 روپے فی کلو تک مہنگا ہو گیا،جلانے کی لکڑی 40 روپے فی من مہنگی ہو گئی، 14 واٹ کے انرجی سیور کی قیمت 15 روپے بڑھ گئی،پٹرول اور ڈیزل کی قیمت گزشتہ جنوری سے 26 روپے فی لٹر زیادہ ہوگئی۔
ملک میں بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال نے صنعتی ترقی پر بھی برا اثر ڈالا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق نومبر 2019 میں بڑی صنعتوں کی پیداوار اکتوبر سے 3.8 فیصد رہی‘ رواں مالی سال کے 5 مہینوں میں بڑی صنعتوں کی پیداوار 5.9 فیصد کم ہوئی۔ نومبر 2018 ء سے 2019ء کے دوران بڑے پیمانے کی صنعتی نمو پیداوار 4.6 فیصد کم ہوئی۔
ملک میں گاڑیوں کی صنعت بھی معاشی بگڑتی ہوئی صورتحال سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ایک سال میں آٹو موبائل شعبے کی پیداوار 44 فیصد کم ہوئی۔ اسی طرح ایک سال میں ٹیکسٹائل کی پیداوار 0.5 فیصد رہی۔
دوسری طرف عالمی معاشی تحقیقی ومشاورتی فرم کے سروے کے مطابق ایک سال میں پاکستان کی مخدوش اقتصادی صورتحال کے باعث لگ بھگ 31 فیصد پاکستانیوں کی ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں ۔ بقیہ بچ جانے والے ملازمت پیشہ افراد شدید پریشانی کے شکار ہیں اور ان میں سے 83 فیصد ملازمت پیشہ افراد کو خطرہ ہے کہ کہیں انہیں بھی ملازمت سے محروم نہ کردیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام میں افراطِ زر، بیروزگاری اور غربت کے خدشات سب سے گہرے ہیں۔ ملک میں جاری معاشی زبوں حالی سے کروڑوں افراد پریشان ہیں۔
ملک میں جہاں عوام معاشی زبوں حالی کا شکار ہے وہیں تبدیلی سرکار کی ٹیم معاشی اہداف کے حصول میں بھی ناکام دکھائی دیتی ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق حکومت مالی سال 2019-20کی پہلی ششماہی میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل نہیں کر سکی جس کی وجہ سے مجمولی مالی خسارہ بڑھ کر1922 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے ، چھ ماہ کیلئے 2198 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا لیکن حکومت اس عرصے میں صرف 2085 ارب ٹیکس ہی جمع کر سکی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button