امریکہ بھارت کے تعلقات میں بڑی زقند

تحریر:امتیازعالم۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا امریکہ کا دوسرا سرکاری دورہ عالمی اور علاقائی جیوا سٹرٹیجک تعلقات میں بڑی اسٹرٹیجک جست کا پیش خیمہ ہے۔ صدر بائیڈن نے امریکہ بھارت تعلقات میں بڑی اسٹرٹیجک تبدیلی کو اکیسویں صدی کی نہایت معنی خیز زقند قرار دیا ہے۔ کانگریس سے خطاب کے دوران مودی کیلئے 15 بار کھڑے ہوکر اور 75 بار تالیاں بجائی گئیں اور کیپٹل ہل ”مودی مودی“ کے نعروں سے گونجتی رہی۔ امریکہ اور بھارت کی چوٹی کی پرائیویٹ کارپوریشنز کے مابین وسیع تر اشتراک عمل کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پر باہمی تکنیکی، تجارتی، دفاعی اور سائنسی اشتراک عمل کے بے پناہ مواقع اور انڈو پیسفک وسیع ریجن میں اسٹرٹیجک شراکت داری کیلئے ہر ممکن تعاون کی راہیں استوار کردی گئی ہیں۔ جبکہ مشترکہ اعلامیہ میں چین کا نام لیے بغیر ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں چین مخالف فوجی تعاون کی بنیاد طے کردی گئی ہے جبکہ پاکستان کا نام لے کر دہشتگردی کے خاتمے اور ممبئی اور پٹھان کوٹ میں ہونے والی دہشتگردی اور سرحد پار دہشتگردی کی روک تھام کیلئے پاکستان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کے دہشتگردی کیلئے استعمال کو بند کرے اور دہشتگرد تنظیموں کے خلاف ضروری کارروائی کرے۔ امریکہ بھارت تعلقات میں جس نئی شروعات کا اعلان صدر بش جونیئر کے دور میں شروع ہوا تھا، اب صدر بائیڈن کے دور میں ایک بڑے اسٹرٹیجک دور میں داخل ہوچکا ہے۔ 75اراکین کانگریس کے انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف احتجاج اور بائیکاٹ کے باوجود کانگریس میں چین مخالف بھارت دوست امریکہ کی دو طرفہ حمایت کی وسیع بنیاد سامنے آئی ہے۔ یقیناً چار طاقتی اتحاد (QUAD) کی سطح پر بڑی پیشرفت نہ ہوسکی تھی اور بیچ میں روس یوکرین جنگ میں بھارت کی غیر جانبداری سے امریکی خلش پیدا ہوئی تھی، لیکن چین کیخلاف جاری تجارتی اور سرد جنگ اتنی بڑی ہے کہ امریکہ کیلئے بھارت کے نخرے اٹھانا مہنگا سودا نہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ آئندہ چند سال میں چین مالیاتی و تجارتی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بنے، امریکہ بھارت کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر آگے بڑھا کر اپنی عالمی مالیاتی اجارہ داری کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کیلئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ لیکن عالمی اجارہ دار سرمایہ داری ، امریکہ کے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں اور ڈالر کی عالمی بالادستی کے خلاف ابھرتی و بڑی معیشتوں کا تضاد بنیادی حیثیت اختیا رکرچکا ہے جس کا اظہار برکس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کی شرکت سے ہوتا ہے۔ اور 70 ترقی پذیر ملکوں کا اتحاد علیحدہ سے عالمی مالیاتی نظام کے غیر مساوی تبادلے اور غیر مساوی تجارت سے نبردآزما ہے۔ دراصل دوسری عالمی جنگ عظیم کے بعد تراشے گئے عالمی مالیاتی نظام اور اس پر امریکی اجارہ داری کا بحران سنگین ہوگیا ہے۔چین کے دوسری بڑی عالمی معیشت بننے کے بعد اور دیگر چھوٹی بڑی معاشی قوتوں کے ابھرنے سے دنیا یک قطبی کی بجائے کثیر القطبی ہوگئی ہے لیکن عالمی سامراجی معاشی چلن جوں کا توں ہے اور یہ اسٹیٹس کو اب ٹوٹنے کو ہے۔

امریکہ بھارت تعلقات میں بڑی چھلانگ کی دو طرفہ بنیاد بہت موافق ہے۔ امریکہ کو چین کی معاشی طاقت ،جو اس سے کئی اعتبار سے آگے جاچکی ہے اور کچھ آگے چل کر امریکہ کو پیچھے چھوڑ جائے گی، کا بڑا چیلنج درپیش ہے تو بھارت کو اپنی شمالی سرحدوں اور بحر ہند میں چین کا سامنا ہے۔ بھارت آبادی اور پڑھی لکھی ہنر مند مڈل کلاس اور دنیا بھر میں زیادہ ارب پتیوں ، سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی اور امریکہ میں بھارتی نژاد امریکیوں کی موثر شرکت کے باعث امریکہ کیلئے ایک پرکشش شراکت دار ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کو تمام جدید ٹیکنالوجیز چاہئیں جو امریکہ ابھی تک کسی سے (برطانیہ کے سوا) شیئر کرنے کو تیار نہیں، لیکن بھارت کو دینے پہ تیار ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود بھارت عالمی معیشت میں اپنا حصہ بڑھانے کیلئے چین کی طرح بہت سرگرم ہے اور برکس و شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کا بھی حصہ ہے۔ اب جی 7اور جی 20 میں بھی متحرک ہے۔ بھارت کو مشکل یہ ہے کہ یہ کسی طرح متحارب بیڑیوں میں قدم جمائے رکھے جسکا اظہار اسکی چین کے ساتھ 130ارب ڈالرز کی تجارت کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ لیکن لداخ میں چین کے ساتھ فوجی جھڑپوں سے بھارت امریکہ کے ساتھ کافی حد تک جانے کیلئے تیار ہوگیا ہے۔

جہاں امریکہ بھارت شراکت داری کے عالمی مضمرات ہیں، وہیں خطے اور خاص طور پر پاکستان پر بھی اسکے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ یقیناً بھارت میں جاری انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیر میں جاری جبر و تشدد کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ کی بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کی مبینہ سرحد پار دہشتگردی کی مذمت پاکستان کی وزارت خارجہ و دفاع کیلئے پریشان کن ہے۔ لیکن اس سے پاکستان کی موضوعی خواہش جو ماضی کے’ امریکہ تیرا شکریہ‘ کی روایت کا اظہار ہے کہ امریکہ پاکستان کو بھی اپنی بغل میں رکھے کے دم ٹوٹنے کا وقت آگیا ہے۔ امریکہ کی تھوڑی بہت قربت کو برقرار رکھنے کیلئے چین سے متوازن فاصلے کی پالیسی کا وقت گزر چکا ہے اور بھارتی دباؤ کے سامنے امریکہ کی جانب سے اشک شوئی کی امید خاک ہوئی۔ لیکن اب بھی دہشتگردی ایک ایسا مسئلہ ہے جس آفت سے چھٹکارا پانا خود پاکستان کے مفاد میں ہے اور ہمیں جرات مندانہ سفارتی پہل قدمی کرتے ہوئے امریکہ و بھارت کو دہشتگردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کی دعوت دینی چاہیے۔ پاکستان پر امریکی دباؤ بڑھے گا خاص طور پر CPEC پر، اسکے لیے عالمی مالیاتی ادارے بھی استعمال ہوں گے۔ ہمیں چین سے اپنے ہمہ نو تعلقات کو پاکستان کی ضرورتوں کے مطابق آگے بڑھانے کی راہیں وسیع کرنا ہوںگی۔ ایران، پاکستان، چین تیل و گیس کی پائپ لائنوں اور ریل و بحری رابطوں کو فروغ دینا چاہیے۔ سب سے بڑا فیصلہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ اپنے ازلی تضاد کے حوالے سے کرنا ہوگا۔ ہمیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا چاہیے۔ کشمیر کا مسئلہ لداخ پر چین بھارت تصادم کے بعد مزید الجھ گیا ہے اور اسکا کوئی حل مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے سابق فوجی حکمرانوں ایوب خان، ضیا الحق اور مشرف کی بھارت کے ساتھ عدم جنگ اور دوستی کے معاہدوں اور کشمیر کے قابل عمل حل کیلئے کی گئی کوششوں کا پھر سے سنجیدہ آغاز کریں۔ وزیر خارجہ بلاول نے عقابی ردعمل کی بجائے ٹھنڈے دل سے اپنے اندرونی حالات کو ٹھیک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وزارت خارجہ اور دفاع میں عقابوں کی نہیں فاختاؤں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اب دنیا کی پانچویں دسویں معیشت بننے کی طرف توجہ دینا ہوگی ۔وگرنہ ایک بے مقصد مخاصمے میں شکست و ریخت سے آپکو کون روک سکتا ہے؟

Related Articles

Back to top button