دہلی فسادات: پاکستان کا ایرانی وزیرخارجہ کے بیان کا خیر مقدم

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایرانی وزیرخارجہ کے نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات سے متعلق بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں نے کہا کہ ’راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہجوم کی جانب سے بھارتی مسلمانوں کو جس کھلے عام تشدد کا سامنا ہے اس پر میں اپنے بھائی جواد ظریف کی جانب سے مسلمانوں کی حفاظت اور خیریت کے حوالے سے تحفظات کے اظہار سے مکمل متفق ہوں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مسلمانوں کا مذموم اور منظم قتل، غیر انسانی اور پورے خطے کےلیے خطرناک ہے‘۔
خیال رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے مسلمانوں کے خلاف ’منظم تشدد‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بے حس پرتشدد رویہ‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ صورتحال سے’پر امن بات چیت‘ کے ذریعے نمٹتے ہوئے ’تمام بھارتی شہریوں کی حفاظت‘ اور ’قانون کی حکمرانی‘ یقینی بنائے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ پیغام دہلی میں 23 فروری کو سلسلہ وار فسادات اور پرتشدد واقعات کے تناظر میں دیا تھا جس میں زیادہ تر مسلمانوں سمیت درجنوں افراد مارے گئے تھے۔
فسادات کے دوران انتہا پسند ہندو قوم پرستوں نے مسلمانوں کی املاک اور مساجد میں توڑ پھوڑ کی جب کہ قرآن پاک کے نسخوں کو بھی شہید کردیا گیا تھا۔
یہ بات مدِ نظر رہے کہ بھارتی حکومت کی خاموش حمایت سے ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر تشدد کے خلاف صرف چند ممالک نے بات کی، ایران سے قبل ترکی ان مسلمان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے با آواز بلند ان حملوں کی مذمت کی۔
دوسری جانب جواد ظریف کے بیان پر بھارت کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا اور ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر احتجاج کے لیے دہلی میں موجود ایرانی سفیر علی چیگنی کو وزارت خارجہ طلب کرلیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی سفیر کو کہا گیا کہ جواد ظریف کا بیان ’مکمل طور پر بلاجواز اور ناقابلِ قبول ہے‘۔
انہیں مزید کہا گیا کہ بھارتی قیادت کو ایرانی وزیر خارجہ کی جانب سے بھارت کے ’داخلی معاملات‘ پر دیے گئے بیان سے تشویش اور مایوسی ہوئی۔ بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’یہ پیغام دیا گیا کہ ان کی جانب سے دہلی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کی منتخب اور متناسب خصوصیات بیان کرنا ناقبلِ قبول ہے‘۔
خیال رہے کہ ماضی میں ایرانی حکومت مضبوط معاشی تعلقات کی وجہ سے زیادہ تر ایسے بیانات سے گریز کرتی رہی ہے جس پر بھارت کی مخالفت کا سامنا ہو لیکن صورت حال اس وقت تبدیل ہوئی جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھارت کو کشمیر میں جابرانہ اقدامات پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button