علوی کا الیکشن بارے بونگی مار کر مستعفی ہونے کا فیصلہ؟

نگران حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات برقرار ہیں اور سیاسی حلقوں میں مسلسل یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر الیکشن کب ہو نگے؟ تاہم تازہ پیسرفت کے مطابق جہاں ایک طرف جنوری کے آخرہ ہفتے میں انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کی تکمیل کے دورانیے میں کمی لاتے ہوئے 30نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا اعلان کیا ہے وہیں دوسری جانب اسلام آباد کے مقتدر حلقوں میں یہ افواہیں زیر گردش ہیں کہ جلد عمرانڈو صدر عارف علوی ایک اور سیاسی وار کرتے ہوئے 8نومبر کو الیکشن کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد 8ستمبر کو مستعفی ہو جائیں گے۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے جلد سے جلد انعقاد کے لیے حلقہ بندیوں کے دورانیے کو کم کرتے ہوئے یک ستمبر کو اعلان کیا ہے کہ حلقہ بندی کی حتمی اشاعت اب 30 نومبر 2023 تک کردی جائے گی۔باخبر ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار کرتا ہے، بشرطیکہ سپریم کورٹ مداخلت نہ کرے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے سب سے موزوں تاریخ 28 جنوری ہوگی، کسی بھی عملی پیچیدگی کی صورت میں انتخابات کی تاریخ 4 فروری تک جا سکتی ہے۔

حلقہ بندیوں کے دورانیے میں کمی کا فیصلہ جو پہلے اعلان کردہ شیڈول کے تحت 14 دسمبر کو مکمل ہونا تھا چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا۔عدالت عظمیٰ کی مداخلت اور آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں چھوڑ کر 90 روز میں عام انتخابات کرانے کی ہدایت کیے جانے کی صورت میں الیکشن کمیشن کے ممکنہ اقدام کے حوالے سے سوال کے جواب میں الیکشن کمیشن کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ہم اس صورت میں سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔تاہم انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ابھی تک سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی کاپی موصول نہیں ہوئی ہے جس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق فیصلے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے نظرثانی کی درخواست مسترد کی گئی ہو۔قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک اصول وضع کیا ہے جس کے اثرات آئندہ عام انتخابات کے انعقاد پر مرتب ہوں گے جوکہ آئین کے تحت 8 نومبر کو ہونے چاہئیں۔

دوسری جانب ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جلد صدر علوی الیکشن کے لئے نومبر کی 7 یا 8 تاریخ دے دیں گے اور 8 ستمبر کو گھر چلے جائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے بطور صدر ذمہ داری جاری رکھنی ہوئی تو پھر الیکشن کی یہ تاریخ نہیں دیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ صدر کا سامان پیک ہے اور وہ جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔صدر رہیں گے یا چلے جائیں گے، یہ طے ہونا ابھی باقی ہے تاہم اگر صدر عارف علوی نے انتخابات کی تاریخ دے دی تو ان سے استعفیٰ لے لیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق الیکشن شیڈول کے اعلان بارے اطلاعات سامنے آنے کے بعد آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی صدر علوی سے دو گھنٹے کی ملاقات بھی کی ہے۔یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب توقع کی جا رہی تھی کہ صدر مملکت وزارت قانون اور الیکشن کمیشن کے مؤقف کو نظرانداز کرتے ہوئے اگلے عام انتخابات کے لئے کسی تاریخ کا اعلان کرنے والے تھے۔ ذرائع یہ بتا رہے تھے کہ صدر عارف علوی انتخابات کے لئے نومبر کی کوئی تاریخ دینے جا رہے تھے۔ صحافتی حلقوں کے مطابق تینوں اہم شخصیات کے مابین ہونے والی یہ ملاقات نہایت رازداری کے ماحول میں ہوئی۔ ایوان صدر میں جب یہ ملاقات جاری تھی تو اس دوران تمام سٹاف کو چوتھے فلور سے ہٹا دیا گیا تھا۔  اس ملاقات کے حوالے سے نہ آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی پریس ریلیز جاری گئی ہے اور نا ہی ایوان صدر نے کوئی بیان دیا ہے۔

تاہم ذرائع کے مطابق اہم اعلیٰ سطحی ملاقات میں انتخابات کی تاریخ بارے بھی بات چیت کی گئی کیونکہ اگر صدر علوی الیکشن کمیشن کے شیڈول کے برعکس کوئی تاریخ دے دیتے ہیں تو انتخابات کو لے کر ملک میں ایک نیا تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے صدر مملکت سے ایسا کوئی اقدام لینے سے باز رہنے کی بات کی ہو گی۔دوسری جانب سینیئر تجزیہ کار مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ صدر کسی صورت استعفیٰ دے کر رخصت نہیں ہوں گے۔ جائیں گے تو سائفر کیس میں پکڑے جائیں گے۔ اگر اپریل سے پہلے جائیں گے تو ان کا حال بھی چودھری پرویز الہیٰ جیسا ہو گا۔

Related Articles

Back to top button