غداری کیس نہ بننے پر خواجہ آصف کو اثاثہ کیس میں پکڑا گیا


وزیراعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کو غداری کے مقدمے میں پھنسایا جائے، لیکن ایسا نہ ہو پایا اور بالآخر تان ٹوٹی وہی پھٹا پرانا آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنانے پر جس پر انہیں جنرل مشرف دور میں بھی گرفتار کیا گیا تھا لیکن تمام تر تحقیقات کے باوجود جب کچھ ثابت نہ ہوا تو نہ صرف انکو رہا کرنا پڑا بلکہ تب کے چیئرمین نیب جنرل محمد امجد نے خود خواجہ آصف سے معذرت بھی کی تھی۔
یہ انکشاف سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے اپنے تازہ تجزیے میں کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف کو اِس صاحبِ اقتدار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے اُن کی گرفتاری کیلئے بار بار فریاد کی تھی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ صاحبِ اقتدار تو گرفتاری کیلئے حکم دیتا ہے، فریاد تو مظلوم لوگ کرتے ہیں۔ تو پھر میں نے فریاد کا لفظ کیوں استعمال کیا؟ آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں۔ لیکن اِس پہلو کو نظرانداز نہ کریں کہ ہر صاحبِ اقتدار بااختیار نہیں ہوتا۔ اقتدار اور اختیار میں فرق سامنے آ جائے تو کٹھ پتلی کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ ھامد۔میر۔کا کہنا یے کہ خواجہ آصف کو ہمارے صاحبِ اقتدار دو سال پہلے گرفتار کروانا چاہتے تھے۔ صاحبِ اقتدار کے دل میں مچلتی یہ خواہش اُن کا حکم بن کر نیب کے پاس پہنچی تو متعلقہ حکام نے خواجہ آصف کے بارے میں تحقیقات شروع کر دیں۔ خواجہ صاحب کے معاملے میں نیب بہت محتاط تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بھی خواجہ محمد آصف کو آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔خواجہ صاحب کو لمبا عرصہ اٹک قلعے میں قید رکھا گیا۔ نیب حکام کبھی اُن سے سوٹ اور ٹائیوں کی انکوائری کرتے، کبھی گھر میں لگی ٹائلوں کے متعلق پوچھتے۔ اخبارات میں خواجہ صاحب کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں شائع کرائی گئیں۔
تب نیب کے سربراہ ایک حاضر سروس فوجی افسر لیفٹیننٹ جنرل محمد امجد تھے۔ انہوں نے خواجہ محمد آصف کے خلاف تحقیقات کی خود نگرانی کی لیکن جب کچھ نہ ملا تو انہوں نے خواجہ صاحب سے معذرت کی۔ حامد میر کا کہنا یے کہ خواجہ آصف کے سیاسی مخالفین کو یہ معذرت بھول چکی ہے لیکن نیب کو یہ معذرت یاد تھی لہٰذا خواجہ صاحب کو انکوائری کیلئے کئی مرتبہ بلایا گیا لیکن انہیں گرفتار کرنے سے گریز کیا گیا۔ دوسری طرف صاحبِ اقتدار خواجہ صاحب کو ہر صورت میں سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے اور اُنہوں نے اپنی اِس خواہش کو کابینہ کے اجلاس کی کارروائی کا حصہ بنا کر میٹنگ منٹس ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن کو بھجوائے۔ اُن سے کہا گیا کہ خواجہ آصف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا جائے کیونکہ انہوں نے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی ایک غیر ملکی کمپنی کا اقامہ رکھا۔
بشیر میمن نے غداری کا مقدمہ بنانے سے گریز کیا تو صاحبِ اقتدار کی خواہش نے حکم کی بجائے فریاد کا رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا اور پھر صاحبِ اقتدار کے کچھ مشیروں اور معاونین نے محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کے ذریعہ خواجہ آصف سمیت مسلم لیگ (ن) کے پچاس سے زیادہ ارکانِ قومی اسمبلی کے خلاف انکوائریاں شروع کرا دیں۔
اُنہی دنوں خواجہ صاحب کو کہا گیا کہ اگر آپ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ کے خلاف تمام انکوائریاں بند ہو جائیں گی۔ خواجہ صاحب نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ اکتوبر میں گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے پہلے جلسے میں خواجہ آصف کے کپتان کے بارے میں سخت تقریر کے بعد صاحبِ اقتدار نے اپنے کچھ ساتھیوں سے کہا کہ خواجہ آصف گرفتار نہیں ہو رہا تو اسے پھینٹی لگوا دو یا اس کے چہرے پر سیاہی ہی پھنکوا دو۔ یہ وہ باتیں ہیں جو خواجہ صاحب نے خود میڈیا کو بتائیں۔ پھر کچھ عرصے سے نیب نے خواجہ محمد آصف کو دوبارہ بلانا شروع کر دیا تھا۔ حامد میر کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب کو یقین ہو چلا تھا کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کر لیا جائے گا۔ کچھ دن پہلے بہت طویل عرصے کے بعد ان سے ایک لمبی نشست ہوئی جس میں خواجہ صاحب نے بتایا کہ صاحبِ اقتدار کی طرف سے میری گرفتاری کی خواہش اب ایک فریاد بن چکی ہے لہٰذا اس مظلوم کی فریاد پر مجھے کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ لہذا خواجہ صاحب کو نیب نے جب بھی بلایا، وہ اپنا ضروری سامان اٹیچی کیس میں ساتھ لیجاتے تھے تاکہ اگر نیب انہیں گرفتار کر لے تو گھر والوں کو ضروری سامان بھجوانے کی تکلیف نہ کرنا پڑے۔ کچھ دنوں سے خواجہ صاحب صبح سے شام تک سوٹ پہنے رکھتے تھے تاکہ گرفتاری اچھے کپڑوں میں ہو اور صاحبِ اقتدار ان کی گرفتاری کی تصویر دیکھ کر اپنے بال نوچنے لگے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ 29 دسمبر 2020 کی شب خواجہ صاحب کو اسلام آباد میں احسن اقبال کے گھر کے باہر سے گرفتار کیا گیا تو وہاں کافی ٹی وی کیمرے موجود تھے۔ اس وقت خواجہ صاحب نہ صرف ایک خوبصورت سوٹ میں ملبوس تھے بلکہ انہوں نے ماسک کے پیچھے سے خوب مسکرا مسکرا کر گرفتاری دی اور ہاتھ ہلاتے ہوئے نیب والوں کےساتھ روانہ ہو گئے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارے صاحبِ اقتدار نے خواجہ آصف کو گرفتار کرانے کیلئے اتنے جتن کیوں کئے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواجہ صاحب نے 2012میں یہ الزام لگایا تھا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے نام پر اکٹھے کئے گئے فنڈز کی ایک بڑی رقم اکٹھی کرنے والے نے جوئے میں ہار دی تھی لہذا یہیں سے خواجہ صاحب کا کپتان کے ساتھ سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی میں بدل گیا۔
تاہم حامد میر کہتے ہیں کہ۔انکی خبر کچھ مختلف ہے۔ وہ۔کہتے ہیں کہ دراصل خواجہ آصف کچھ عرصے سے بار بار ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی بات کر رہے تھے جس کا مقصد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نہیں بلکہ اداروں کے درمیان ڈائیلاگ شروع کرانا تھا۔ ایک دفعہ سینیٹر اور چھ دفعہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونے والے خواجہ محمد آصف وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھی رہے۔ وہ چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے، لیکن ان کی سیاست نواز شریف سے شروع ہو کر نواز شریف پر ختم ہوتی ہے، ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے روابط اور کچھ صاحبانِ اختیار کے ساتھ تعلقات کو ہمارا صاحبِ اقتدار ہمیشہ اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ صاحبِ اقتدار کی سیاست صرف اور صرف محاذ آرائی ہے لہٰذا جو کوئی بھی ڈائیلاگ اور مفاہمت کی بات کرتا ہے اُسے صاحبِ اقتدار اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اسی لئے شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا اور اسی لئے خواجہ آصف کو گرفتار کرانے کیلئے اِس قدر جتن کئے گئے۔ حامد۔میر کے مطابق پچھلے دنوں مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز لے کر شہباز شریف سے ملنے جیل گئے تھے۔ خواجہ آصف بھی اپنی پارٹی قیادت کی متعین کردہ حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنے ایک دوست کے ذریعہ ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے لیکن اُن کی گرفتاری صاحبِ اقتدار کی طرف سے محمد علی درانی اور انہیں شہباز شریف کے پاس بھجوانے والوں کیلئے ایک پیغام ہے۔ جو بھی ڈائیلاگ کی بات کرے گا وہ سلاخوں کے پیچھے جائے گا خواہ اس کیلئے فریاد ہی کرنی پڑے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ خواجہ آصف کو اِس صاحبِ اقتدار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے اُنہیں گرفتار کرا کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ میں صاحبِ اختیار بھی ہوں۔ صاحبِ اقتدار جب صاحبِ اختیار بننے کیلئے آئین و قانون کو اپنے گھر کی لونڈی بنانے کی کوشش کرتا ہے تو غلطیاں کرتا ہے۔ خواجہ آصف کی گرفتاری بھی ایک ایسی ہی غلطی ہے۔ اس گرفتاری سے خواجہ صاحب کے بارے میں ان تمام افواہوں کا خاتمہ ہوگیا جو ان کے کچھ اپنے ہی ساتھیوں نے پھیلائی تھیں۔ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کی توسیع کیلئے جب مسلم لیگ (ن)نے قانون سازی کی حمایت کی تو یہ حمایت نواز شریف کی بجائے خواجہ صاحب کے کھاتے میں ڈال کر انہیں مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی۔ وہ وزراء جو کل شام یہ ڈھول بجا رہے تھے کہ پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیگی اور پی ڈی ایم ٹوٹ گئی، اِن تمام وزراء کے بیانات اُس وقت پس منظر میں چلے گئے جب خواجہ صاحب کی گرفتاری کی خبر آئی۔ اِس گرفتاری نے ساری دنیا کو بتادیا کہ کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں سخت پریشان بیٹھا ہے کیونکہ اسے اصل خطرہ استعفوں سے نہیں اسلام آباد کی طرف متوقع لانگ مارچ سے ہے۔ حامد میر کے مطابق خواجہ صاحب کو اس لئے بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ پہلے بھی نیب کی گرفتاری کے بعد ایک صاحبِ اختیار نے ان سے معذرت کی تھی، اور انکی تازہ گرفتاری کے بعد بھی ایک معذرت اُن کا انتظار کر رہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button