ترک صوفی شاعر یونس امرہ کون تھے؟

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے کیے گئے لاک ڈاؤن کے دوران وقت گزارنے کےلیے اکثر لوگ اپنے دوستوں سے کوئی اچھا ڈرامہ یا فلم دیکھنے کےلیے مشورے مانگ رہے ہیں اور پاکستان میں تو وزیراعظم عمران خان خود ہی اپنی قوم کو لاک ڈاؤن کے دوران دیکھنے اور پڑھنے کےلیے ڈرامے اور کتابیں تجویز کرتے نظر آتے ہیں۔
عمران خان کی ترک تاریخ میں دلچسپی ڈھکی چھپی نہیں اور انہوں نے ہی سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی ترک ڈرامہ سیریل ‘ارطغرل’ کو اردو زبان میں ڈبنگ کے بعد پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پر نشر کرنے کا حکم دیا تھا۔
حال ہی میں ان کی جماعت کے ہی سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ اب وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ ایک اور ترک ڈرامہ سریل ‘یونس امرہ’ کو اردو زبان میں پاکستان میں نشر کیا جائے۔
جہاں بہت سے لوگ وزیراعظم عمران کی ان تجاویز کو پاکستان کی نوجوان نسل کو اسلامی تاریخ و تمدن سے روشناس کروانے کی کوشش قرار دے کر سراہ رہے ہیں وہیں کچھ لوگوں نے اس پر مایوسی کا بھی اظہار کیا ہے جن میں پاکستانی اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار شان شاہد بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’عرب اور ترک تاریخ اور شخصیات کی تشہیر کرنے کے بجائے ہمیں اپنی تاریخ اور ہیروز کو تلاش کرنا چاہیے۔‘
اس بحث سے قطع نظر کہ آیا ترک تاریخ اور ہیرو ہمارے ہیں یا نہیں ہم نے تاریخ کی کتابوں کو کھنگال کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر یونس امرہ کون ہیں جن کے بارے میں وزیراعظم پاکستان عمران خان قوم کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
یونس امرہ (1320-1238) ترک زبان کے مشہور صوفی شاعر تھے جو 13ویں صدی عیسوی میں اناطولیہ میں، جس کا بیشتر حصہ دور حاضر کا ترکی کہلاتا ہے، رہائش پذیر رہے۔
یونس امرہ کی زندگی کے بارے میں بہت سی مصدقہ معلومات تو تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ گئیں لیکن ان کی زندگی کے بہت سے قصے آج بھی ترک لوک داستانوں کا اہم حصہ ہیں جنہیں بہت شوق سے پڑھا،سنا اور گایا جاتا ہے۔
1071 میں جب اناطولیہ میں سلجوق سلطنت قائم ہوئی تو قونیا کو اس کا دارالحکومت چنا گیا اور اس دور میں اسلامی تہذیب و تقافت کو فروغ دینے پر خاص توجہ دی گئی۔
یہی وہ دور ہے جب اس علاقے میں مولانا جلال الدین رومی، ابن العربی اور یونس امرہ جیسی شخصیات سامنے آئیں۔
صباح الدین یوبگلو اپنی کتاب ‘یونس امرہ ‘ میں لکھتے ہیں کہ یونس نے جب سنہ 1240 میں اناطولیہ میں آنکھ کھولی تو نہ صرف یہ خطہ نہ صرف تجارتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیوں کا محور تھا بلکہ سیاسی کشمکش کا بھی شکار تھا۔
1230 میں اناطولیہ پر منگول حملے نے ترک بادشاہ الپ ارسلان کی سلجوقی سلطنت کو کمزور کیا اور سلجوقی سلطنت کا اثر و رسوخ چند شہروں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔
جہاں اس خطے میں سلجوقی اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا تھا وہیں سلطنت عثمانیہ کے بانی ارطغرل کے بیٹے غازی عثمان بازنطینی فوجوں کو شکست دے کر علاقے میں اپنی طاقت بڑھا رہے تھے۔
تاہم سلجوق دور میں صوفی علماء کو معاشرے میں خاص مقام حاصل تھا اور یہ صوفی نہ صرف مذہبی معاملات میں بادشاہ اور قوم کی رہنمائی کرتے تھے بلکہ ان کے پاس بہت سے اہم سیاسی عہدے بھی تھے۔ یونس امرہ بھی سلجوق دور میں سرکاری عہدے پر فائز رہے۔
یونس امرہ کا تعلق ایک غریب کسان گھرانے سے تھا۔ تصوف کی طرف ان کے سفر کے بارے میں یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ڈاکٹر ترگت دردران اپنی تحقیق ‘یونس امرہ اینڈ ہیومن ازم’ میں رقم طراز ہیں کہ ایک سال جب قحط سالی کے وجہ سے فصل کم ہوئی تو یونس نے جنگلی پھل اکٹھے کیے اور اس وقت کے مشہور صوفی عالم حاجی بکتاش ولی کے درسگاہ پر جا کر ان سے پھلوں کے بدلے کاشت کاری کےلیے بیجوں کا مطالبہ کیا۔
کہاوت ہے کہ حاجی بکتاش ولی نے انہیں اس کے بدلے تین بار دعا دینے کی پیشکش کی لیکن یونس امرہ نے بیج لینے پر ہی مُصر رہے۔ اس پر حاجی بکتاش نے انہیں بیج دے دیے۔
یونس امرہ یہ بیج لے کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے لیکن راستے میں انہیں خیال آیا کہ انہوں نے دعا کے بدلے بیج لے کر غلطی کر دی۔ اپنی اس غلطی کا مداوا کرنے کےلیے وہ حاجی بکتاش ولی کے پاس لوٹے اور ان سے گزارش کی وہ انہیں اپنی سرپرستی میں لے لیں لیکن حاجی بکتاش ولی نے انہیں ایک عالم طپتوق امرہ سے رجوع کرنے کو کہا۔
پھر یونس نے 40 سال طپتوق امرہ کی شاگردی میں گزار دیے۔ طپتوق امرہ کا تعلق اس صوفی سلسلے سے تھا جو اپنی عبادات میں سر اور ساز کا استعمال کرتے ہیں اور یونس امرہ کو اپنے استاد کا ساز بہت پسند تھا۔
ڈاکٹر ترگت دردران کے مطابق یونس امرہ کے بارے میں ایک اور قصہ جو مشہور ہے اس کے مطابق ایک مرتبہ وہ طپتوق امرہ کی خانقاہ چھوڑ کر چلے گئے اور کچھ ہی عرصے بعد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے واپس جا کر اپنے استاد سے معافی مانگ کر ان کی شاگردی میں لوٹنے کے بارے میں سوچا۔
جب وہ اپنے استاد کی رہائش گاہ پر پہنچے تو ان کی ملاقات طپتوق کی اہلیہ سے ہوئی۔ یونس امرہ نے ان سے پوچھا کہ کیا ان استاد انہیں معاف کر دیں گے یا نہیں جس پر طپتوق کی اہلیہ نے انہیں مشورہ دیا کے وہ ان کے دروازے کے آگے بیٹھ جائیں۔
استاد کی اہلیہ نے کہا کہ جب طپتوق نمازِ فجر کےلیے نکلیں گے تو چونکہ ان کی بینائی کمزور ہے، ان کے قدم لامحالہ یونس سے ٹکرائیں گے اور وہ پوچھیں گے کہ کون ہے تو وہ (اہلیہ) انہیں بتائیں گی کہ ‘یونس ہے’۔ اگر طپتوق نے جواب میں پوچھا کون یونس تو وہ (یونس امرہ) خاموشی سے چلے جائیں لیکن اگر انہوں نے یونس کو پہچان لیا تو سمجھ لیں کہ ان کے استاد ان سے نالاں نہیں۔
روایت ہے کہ صبح جب یونس امرہ کے استاد کے قدم ان سے ٹکرائے اور انہوں نے پوچھا کون ہے تو ان کی اہلیہ نے انہیں بتایا کہ یونس ہے تو طپتوق نے خوشی سے کہا ‘میرا دوست یونس آ گیا۔’
یونس امرہ کے دور کے ادب میں فارسی اور عربی الفاظ کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ اناطولیہ میں رہنے والے عام ترک اس سمجھنے سے قاصر تھے۔
یونس امرہ وہ پہلے ترک صوفی شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری کےلیے آسان ترک زبان کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے ان پیغام عوام کے دلوں میں اترا اور ان کی مقبولیت اور پیروکاروں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
ترک تاریخ دان مصطفیٰ عزت باقی المعروف عبدالباقی گلپنارلی اپنی کتاب ‘یونس امرہ اور تصوف’ میں لکھتے ہیں کہ یونس امرہ نے ‘وحدانیت’ خدا اور اس کے بندوں سے محبت کو اپنی تعلیمات کا محور بنایا۔
ان کے مطابق یونس نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کے تین درجے بیان کیے۔ پہلا ’ایمان‘ یعنی ایک خدا پر یقین، دوسرا ’اسلام‘ یعنی اسلامی اصولوں کی پابندی اور تیسرا ’احسان‘ یعنی خدا کے بندوں سے حسن سلوک اور ان کے مطابق صوفی وہ ہے جو اسلام کے پہلے دو درجے عبور کر لے اور تیسرے کی تلاش میں رہے۔
یونس امرہ کی شاعری کا سب سے پرانا ریکارڈ 15ویں صدی کے مسودوں کی صورت میں ملا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے کوئی شاعری ترتیب نہیں دی بلکہ یونس امرہ کی بہت سی شاعری اور ان کی زندگی کا واقعات سینہ بہ سینہ نسل در نسل منتقل ہوئے مگر وقت کے ساتھ ضائع بھی ہو گئے۔
یونس امرہ کو خالص ترک زبان کے ادب کا بانی مانا جاتا ہے۔ وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں صرف ترک زبان کا استعمال کیا۔
اسی لیے 1923 میں جب مصطفیٰ کمال اتاترک نے جب جدید سکیولر ترکی کی بنیاد رکھی تو انہوں نے قوم پرست نظریے کو بڑھاوا دینے کےلیے یونس امرہ جیسے متعدد ترک ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں کے کام کو فروغ دیا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یونیسکو نے یونس امرہ کے انسان دوست پیغام کو سراہتے ہوئے ان کی 750ویں سالگرہ کے موقع 1991 کو یونس امرہ کا سال قرار دیا تھا۔
سنہ 2015 میں ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی پر یونس امرہ کی زندگی پر ڈرامہ سیریل ‘یونس امرہ : محبت کا سفر’ نشر کی گئی تھی جو اب نیٹ فلکس پر بھی موجود ہے۔
دو سیزن پر محیط یہ وہی ڈرامہ سیریل ہے جسے اب وزیراعظم عمران خان اردو زبان میں پاکستان میں نشر کرنے کے خواہشمند ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button