پہاڑی علاقوں میں خطرناک ڈولی کیوں استعمال کی جاتی ہے؟

 

خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن سمیت پاکستان کے مختلف پہاڑی علاقوں میں مقامی آبادی کو بنیادی سفری سہولیات میسر نہیں ہیں۔اس مسئلہ کے حل کے لیے مختلف پہاڑی مقامات کے رہنے والے مقامی طور پر تیارہ کردہ چیئر لفٹ استعمال کرتے ہیں، جسے ڈولی کہا جاتا ہے۔

ڈولی مقامی ہندکو زبان میں اس برتن کو کہا جاتا ہے جس میں خواتین دوردراز چشموں سے پینے کا پانی بھر کر لاتی ہیں۔ایبٹ آباد، مانسہرہ اور بٹگرام سمیت چند دیگر مقامات پر نصب یہ ڈولی یا ڈولیاں عموما ایسے مقامات پراستعمال کی جاتی ہیں جہاں سے عام طور پر گزرنا ممکن نہی ہوتا۔پہاڑی دریاؤں اور برساتی نالوں پر نصب کی جانے والی یہ ڈولیاں کچھ مقامات پر اتنی اونچی لگائی جاتی ہیں کہ ان کی بلندی ہزاروں فٹ تک پہنچ جاتی ہے۔

دیہی علاقوں میں کوئی بیمار ہو جائے، اسکول و کالج جانا ہو، بازار سے سودا سلف لانے کی باری ہو، شادی بیاہ کا موقع ہو یا کسی کے جنازے میں شرکت کرنی ہو، ڈولی کے بغیر سفر کرنا اور ایک سے دوسری جگہ جانا ناممکن ہوتا ہے۔ڈولی کو نصب کرنے کے لیے عموما سوزوکی پک اپ کے کور کے طور پر استعمال ہونے والے شیڈ جیسا سیٹ اپ بنایا جاتا ہے۔ اس پنجرے نما سواری کے اندر دونوں جانب سیٹس نصب ہوتی ہیں جن پر بیٹھا جاتا ہے۔

ڈولی کو چلانے کے لیے لوہے کے موٹے رسوں کو دریا یا دیگر بلند مقامات پر ایک سے دوسری جانب یوں باندھا جاتا ہے کہ یہ بالکل آمنے سامنے رہیں۔لوہے کی فرہم تیار کر کے ڈولی کو اس سے لٹکا دیا جاتا ہے۔ مزید احتیاط کے لیے ڈولی کو آہنی رسی کی مدد یوں فریم میں جکڑا جاتا ہے کہ اس کا وزن مکمل طور پر رسیوں پر موجود رہے۔

ڈولی کے سفر کے آغاز اور اختتام پر چبوترے بنائے جاتے ہیں جہاں ماضی میں ہاتھوں کی مدد سے رسی کو کھینچا جاتا تھا۔ بجلی میسر آنے کے بعد اب یہی کام برقی موٹر سے لیا جاتا ہے۔ موٹر چلنے پر ڈولی کے اوپر نصب پہیے لوہے کی رسی پر چلتے اور اسے ایک سے دوسری جانب منتقل کرتے ہیں۔عموما چھ افراد کی گنجائش رکھنے والی ڈولی میں بعض اوقات درجن بھر افراد کو بھی سوار کر لیا جاتا ہے۔

عموما نجی انتظام کے تحت چلائی جانے والی یہ ڈولیاں آمنے سامنے موجود پہاڑوں پر نصب ہوتی ہیں۔ ان میں سفر بظاہر ایڈونچر لگتا ہے لیکن پہاڑی زندگی کی سخت کوشی سے محروم افراد کو یہ تجربہ کرنا پڑے تو بہت سے کمزور دل افراد ان میں قدم بھی نہیں رکھ پاتے۔

Back to top button