پاکستانی معیشت ریڈزون میں، بیروزگاری بڑھنے کا خدشہ

https://youtu.be/UkvVGedZLRw
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک کی درآمدات میں بے تحاشا اضافے اور مسلسل بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کے خطرناک رجحان کے باعث پاکستان کی معیشت ریڈ زون میں داخل ہوگئی ہے جس کے بعدبیروزگاری کی نئی لہر کا خدشہ پیدا ہو گیاہے۔
معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس صورتحال میں ملک شیطانی چکر میں پھنس جاتا ہے کیونکہ تجارتی خسارہ بڑھنے سے جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھتا ہے جس کے باعث شرح مبادلہ اور کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے اور ملک میں آمدنی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے غربت بڑھتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جو تجارتی خسارہ گذشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 5.8 ارب ڈالر تھا وہ موجودہ سال میں 11.6 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران جولائی سے ستمبر میں 18.63 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں جو گذشتہ برس اس عرصے میں 11.2 ارب ڈالر رہیں، اور یہ اضافہ 65 فیصد سے زائد رہا۔ واضح رہے کہ ن لیگ کی حکومت کے آخری مالی سال میں تجارتی خسارہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا جب یہ 37 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔ تحریک انصاف حکومت نے بتدریج اس میں کمی لانا شروع کی تھی۔ اس حکومت کے پہلے مالی سال میں یہ خسارہ 31 ارب ڈالر، دوسرے مالی سال میں 23 ارب ڈالر رہا تھا۔ تاہم خسارے میں کمی کا یہ رجحان برقرار نہیں رہ سکا اور 30 جون 2021 کو ختم ہونے والے موجودہ حکومت کے تیسرے مالی سال میں یہ خسارہ ایک بار پھر 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور اس میں اضافے کا رجحان تسلسل سے جاری ہے۔
دوسری جانب ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا تاہم ان میں ہونے والا اضافہ 27 فیصد رہا۔ گذشتہ برس پہلی سہ ماہی میں برآمدات 5.47 ارب ڈالر تھیں جو اس سال کی سہ ماہی میں 6.9 ارب ڈالر رہیں۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیرونی تجارت کے شعبے میں موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سو فیصد تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کی درآمدات میں کمی لانے کا اعلان کیا تھا تاکہ اس کے ذریعے تجارتی خسارے اور ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کیا جا سکے۔ اگرچہ گذشتہ مالی سال میں تحریک انصاف کی حکومت اس خسارے میں تھوڑی بہت کمی لانے میں کامیاب ہوئی تاہم موجودہ مالی سال کے آغاز سے درآمدات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق تجارتی خسارے میں اضافہ ملکی معیشت کے لیے ایک خطرناک علامت ہے کیونکہ یہ خسارے جاری کھاتوں کے خسارے کو بڑھا کر شرح مبادلہ پر منفی اثر ڈالتا ہے جس کا براہ راست منفی اثر روپے کی ڈالر کے مقابلے میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ملکی کرنسی اس وقت ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہے، جس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک سب سے بنیادی وجہ درآمدی بل میں اضافے کی وجہ سے ڈالر کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہے جبکہ دوسری جانب ملکی برآمدات میں بہت ہی کم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان کے درآمدی شعبے میں ملک میں آنے والی مصنوعات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کھانے پینے کی چیزوں، تیل کی مصنوعات، گاڑیاں اور مشینری کی درآمدات میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال میں مصنوعات کے لحاظ سے درآمدات کا جائزہ لیا جائے تو صرف اگست کے مہینے میں ملک میں 66 ہزار میٹرک ٹن چینی درآمد کی گئی جب کہ گذشتہ اگست میں یہ صرف 917 میٹرک ٹن تھی۔ اسی طرح ستر فیصد سے زائد اضافہ گندم کی درآمد میں دیکھا گیا تو دوسری جانب پام آئل کی درآمد میں 120 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ملک میں دالوں کی درآمد میں 84 فیصد اضافہ ہوا اور ملک میں چائے کی درآمد میں 24 فیصد اضافہ ہوا۔ دوسری جانب ملک میں تیل کی مصنوعات میں تقریباً 128 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ گاڑیوں کی درآمد میں دو سو فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح مشینری کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوا۔
موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرونا ویکیسن کی درآمد نے بھی درآمدات میں اضافہ کیا۔ اس سلسلے میں ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ درآمدی بل میں اضافے کی وجہ کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ مشینری، گاڑیوں اور تیل کی مصنوعات میں ہونے والا اضافہ ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کی آمدنی نہیں بڑھی کہ وہ زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانیوں کی 2018 سے لے کر اب تک فی کس آمدنی میں کمی ہوئی ہے جو اس وقت 1482 ڈالر تھی، اس وقت 1190 ڈالر تک گِر گئی ہے۔ ڈاکٹر فرخ نے تجارتی خسارے میں اضافے کی اصل وجہ برآمدات کے نہ بڑھنے کو قرار دیا ہے۔ انھوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے گذشتہ مالی سال میں 31 ارب ڈالر کی برآمدات کا جشن منایا تاہم یہی بر آمدات 14-2013 کے مالی سال میں اتنی ہی تھیں اور اس کے بعد گرنا شروع ہو گئیں۔ انھوں نے کہا ہم پام آئل، گندم اور چینی تک درآمد کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تجارتی خسارہ بڑھنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کے شعبے کو مراعات دے کر میشنری زیادہ درآمد کی جا رہی ہے جو ہر کچھ سال کے بعد کیا جاتا ہے جس سے وقتی طور پر تو کچھ فائدہ ہوتا ہے لیکن یہ عمل پائیدار نہیں ہوتا۔

Related Articles

Back to top button