کیا حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا رسک لے گی؟


تحریک انصاف حکومت کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے تحریک لبیک کے ساتھ طے پانے والے حالیہ معاہدے کے بعد یہ نکتہ اٹھایا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے حکومت کیونکر ملک بدری کا فیصلہ کرسکتی ہے جبکہ ماضی میں ایسی کوئی نظیر موجود نہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک حکومت کی جانب سے 20 اپریکل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے متعلق پارلیمنٹ کے ذریعے کوئی حتمی فییصلہ کرنے کی یقین دھانی دراصل تحریک لبیک کو انگیج رکھنے کی کوشش ہے۔
وفاقی حکومت کے ساتھ نئے معاہدے کے بعد تحریک لبیک پاکستان نے فرانسیسی سفیر کو بیدخل کروانے کے لئے 16 فروری کو شروع ہونے والا اسلام آباد مارچ مؤخر کردیا ہے۔ دوسری جانب ایک بیان میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ حکومت 20 اپریل تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ تاہم سفارتی اور قانونی حلقوں میں اس حکومتی یقین دھانی کے قابل عمل ہونے کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اسے ڈنگ ٹپائو پالیسی یا گونگلوں سے مٹی جھاڑنے کا ایک حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب حکومت نے پچھلے تین مہینوں سے اس معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں کی تو 20 اپریل تک کیا کرلے گی۔ یاد ریے کہ وفاقی حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان ناموس رسالت ﷺ کے معاملے پر ایک ضمنی معاہدہ طے پاگیا ہے جس کی تصدیق وزیراعظم اور وفاقی وزیر مذہبی امور نے بھی کردی ہے۔خیال رہے کہ 2020 میں فرانس میں سرکاری سطح پر نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے 2 روز بعد 19 نومبر 2020 کو تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی انتقال کرگئے تھے۔ نومبر میں ہوئے اس معاہدے میں حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق 3 ماہ میں پارلیمنٹ سے فیصلہ لے گی، فرانس میں اپنا سفیر مقرر نہیں کرے گی اور تحریک لبیک کے تمام گرفتار کارکنان کو رہا کرے گی، مزید یہ کہ حکومت دھرنا ہونے کے بعد تحریک لبیک کے رہنماؤں یا کارکنان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کرے گی۔ اگرچہ آخری 2 مطالبات فوری طور پر مان لیے گئے تھے لیکن پہلا مطالبہ زیر التوا تھا۔
بعد ازاں تحریک لبیک نے رواں برس جنوری میں خبردار کیا تھا کہ حکومت نے اگر 17 فروری تک توہین رسالت ﷺ کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا تو وہ اپنا احتجاج دوبارہ شروع کرے گی۔ خادم حسین رضوی کے چہلم پر ان کے صاحبزادے اور تحریک کے نئے سربراہ سعد رضوی نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر آپ اپنا معاہدہ بھول گئے ہیں تو ہماری تاریخ دیکھ لیں، اب ہم حضور ﷺ کی ناموس کے لیے مرنے کو مزید تیار ہیں، آپ کے پاس فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے لیے 17 فروری تک کا وقت ہے جس کے بعد حکومت کی جانب سے لبیک والوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا جس کے نتیجے میں حکومت نے 20 اپریل تک کی مہلت حاصل کرلی ہے۔
اس حوالے سے معاہدے کی دستیاب نقل کے مطابق تحریک لبیک پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان ناموس رسالت کے معاملے پر 16 نومبر 2020 کو ایک معاہد ہوا تھا جس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا۔ اس میں کہا گیا کہ اس مسئلے پر حکومت پاکستان اور تحریک لبیک ﷺ کے درمیان گزشتہ ایک ماہ سے مذاکرات جاری تھے، جس میں حکومت نے اپنے عزم کو دوہرایا اور معاہدے کی شقوں کو 20 اپریل 2021 تک پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا اور فیصلے پارلیمنٹ کی منظوری سے طے پائیں گے۔ دونوں فریقین کے درمیان ہوئے معاہدے کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے جو لوگ فورتھ شیڈول پر ڈالے گئے ہیں ان کے نام نکال دیے جائیں گے، مزید یہ کہ 20 اپریل 2021 تک معاہدے کی روح کے منافی کوئی سرگرمی پر معاہدہ منسوخ سمجھا جائے گا۔
سامنے آنے والے تحریری معاہدے کے مطابق اس ضمنی معاہدہ کا اعلان وزیراعظم پاکستان کریں گے جس کے بعد یہ معاہدہ نافذ العمل ہوگا اور اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ مذکورہ معاہدے پر حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے دستخط موجود ہیں جبکہ تحریک لبیک کی طرف سے ان کے شوریٰ کے نمائندگان غلام غوث بغدادی قادری رضوی، ڈاکٹر محمد شفیق امینی اور غلام عباس فیضی شامل ہیں۔ میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم نے تصدیق کی ہے کہا کہ ہماری ٹیم تحریک لبیک سے بات کر رہی تھی اور ان سے ہمارا ایک معاہدہ ہوگیا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک نے جو فروری کی تاریخ دی تھی وہ 20 اپریل تک چلی گئی ہے اور ہم معاہدے کے تحت ان کے مطالبات پارلیمنٹ میں رکھ دیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں تحریک لبیک اور اپنے لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ کسی حکومت نے خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شان میں گستاخی پر اتنا واضح مؤقف نہیں اپنایا جو ہماری حکومت نے اپنایا۔انہوں نے کہا کہ میں فخر سے کہتا ہوں کہ ہماری حکومت نے بین الاقوامی سطح پر یہ مؤقف اپنایا اور وہ اس لیے نہیں لیا کہ ہمیں کسی سے خوف تھا یا ہم نے ووٹ لینے تھے بلکہ یہ میرا عقیدہ ہے کہ مغربی ممالک میں ایک فتنہ بیٹھا ہے جو منصوبے کے تحت نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، وہ یہ سب اس لیے کرتا ہے کہ مغرب میں انہیں سمجھ نہیں ہے کہ ہمارے نبی ﷺ ہمارے دل میں کس طرح بستے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے پہلے دن سے یہ معاملہ او آئی سی اور اقوام متحدہ میں اٹھایا ہے اور ہم کامیاب تب ہوں گے جب دیگر مسلم ممالک کے سربراہان اس پر نہیں بولیں گے، اس وقت صرف میں نے اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے بات کی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ جب تک 20 سے 25 مسلم ممالک کے سربراہان اس پر بات کریں گے تب اس کا اثر ہوگا، ہم سب کا مقصد ہے کہ یہ جو نبی ﷺ کی بے حرمتی کرتے ہیں اس پر سب مل کر کارروائی کریں لیکن یہ اثر مؤثر تب ہوگا جب دیگر مسلم ممالک کے سربراہان ہمارے ساتھ مل کر کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button