انوار الحق کاکڑ کی نگران حکومت کتنی کامیاب ثابت ہوئی؟

تین ماہ کے دوران الیکشن کرانے کیلئے وجود میں آنے والی انوار الحق کاکڑ کی نگران حکومت کم و بیش 6 ماہ سے زائد عرصہ تک ایوان میں براجمان رہی جس کی بڑی وجہ حلقہ بندیاں اور دیگر انتخابی پیچیدگیاں تھیں، اس حکومت کے دوران جہاں ماہرین نے آئی ایم ایف کے 1.42 ارب ڈالر کے سٹینڈبائی پروگرام کو ٹریک پر رکھنے پر نگراں وزیراعظم کاکڑ کو سراہا وہیں اُن کی حکومت دیگر معاشی فیصلوں، انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بندشوں اور نو مئی کے واقعات کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے تسلسل پر بھی ہدفِ تنقید بھی بنی رہی۔ملک میں صاف و شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے درکار فضا قائم رکھنے کا مینڈیٹ لے کر آنے والی نگراں حکومت کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات بھی متنازع اس وقت ہو گئے جب ملک بھر میں سیاسی جماعتیں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے سڑکوں پر نکل آئیں اور بیشتر مقامات پر ان مظاہروں میں شریک لوگوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اہلکار ایک بار پھر ڈنڈے چلاتے ہوئے نظر آئے۔ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران مجموعی طور پر ملک میں گیس کی قیمت میں 520 فیصد جبکہ بجلی کی قیمت میں 71 فیصد تک کا اضافہ ہوا، نگران حکومت کے دورِ حکومت میں مہنگائی کی شرح بھی 25 فیصد سے زیادہ رہی۔ایٹلانٹک کونسل کے ساتھ بحیثیت نان ریزیڈینٹ فیلو منسلک عزیر یونس کہتے ہیں کہ ’نگران حکومت کے دور میں ایک اچھی چیز یہ نظر آئی کہ انھوں نے یقینی بنایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے کیا گیا سٹینڈ بائی ایگریمنٹ ٹریک پر رہے اور یہ پورا عمل بغیر کسی اگر مگر اور قیاس آرائیوں کے مکمل ہو گیا۔‘عزیر یونس مزید کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں جن شعبوں میں نگران حکومت ناکام ہوئی وہ ایسے شعبے تھے جن کو ٹھیک کرنا نگران حکومت کا کام بھی نہیں تھا۔ جب انھوں نے حدود سے آگے جانے کی کوشش کی وہاں وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔لاہور کی لمز یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر علی حسنین کہتے ہیں کہ ’اگر ایس آئی ایف سی کا مقصد ملک میں سرمایہ لانا ہے تو صرف سرمایہ لانے سے معیشت بہتر نہیں کی جا سکتی جب تک آپ اپنی مینجمنٹ ٹھیک نہیں کرتے۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ ’نگران حکومت کی بُنیادی ذمہ داری ملک میں صاف و شفاف انتخابات کروانے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مدد کرنا تھی اور اس میں وہ بُری طرح سے ناکام ہوئے۔اُن کی حکومت میں جو انتخابات ہوئے وہ ملک کی تاریخ کے ’متنازع ترین‘ انتخابات تھے۔ ان کے مطابق ’پی ٹی آئی کی شکایت بالکل درست ہے کہ انھیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی۔تجزیہ کار مظہر عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیسا کہ اس حکومت نے اداروں کی نجکاری کا پروگرام شروع کیا، یہ کام نگران حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ صحافی و تجزیہ کار بینظیر شاہ کہتی ہیں کہ ’نگران حکومت اور ان کے وزرا نے جبری گمشدگیوں کے جُرم کے حوالے متعدد بار جھوٹ بولے حالانکہ اس پر میڈیا کے کئی اداروں نے فیکٹ چیک بھی کیا۔ جس طرح سے نگران حکومت نے پہلے بلوچ مظاہرین کو نظرانداز کیا اور پھر انھیں بدنام کیا اس سے واضح طور پر حکومت کی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔نگران حکومت نے 8 فروری کو عام انتخابات والے دن بھی ملک بھر میں موبائل انٹرنیٹ بند کر دیا تھا۔انٹرنیٹ اور سینسرشپ کے موضوعات پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کی شریک بانی فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ ماضی میں بھی یوٹیوب وغیرہ پر غیراعلانیہ پابندیاں تو لگتی آئی ہیں لیکن ’اس بار جب ایکس پر پابندی لگی تو اس حوالے سے عدالتوں کے فیصلے بھی نہیں مانے گئے۔پاکستان میں گزشتہ ہفتوں سے جاری سیاسی غیریقینی کے بعد بالآخر ایک نئی منتخب حکومت قیام میں آ گئی ہے۔ ایک نگراں وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ نگراں حکومت نے صرف وہی اقدامات اٹھائے جن کا مینڈیٹ انھیں آئین اور قانون اور سابقہ حکومت کے دور میں ہونے والی قانون سازی کے تحت فراہم کیا گیا۔دوسری جانب بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نگراں وفاقی وزیر جمال شاہ کا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لگائی جانے والی بندشوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’انٹرنیٹ پر بندش اب بھی ہے اور ہم سب اس سے پریشان ہیں۔‘

Related Articles

Back to top button