کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

ادب کی زبان میں مرزا غالب کو شہنشاہ سخن کہا گیا ہے۔ یہ قول سابقہ آمیز ہوتے ہوئے بھی حقیقت سے خالی نہیں ہے کیونکہ غالب نے جس صنف سخن پر بھی طبع آزمائی کی منفرد و ممتاز رہے۔ انھوں نے نہ صرف غزل کو ہی مشق سخن بنایا بلکہ دیگر اصنافِ سخن پر بھی طبع آزمائی کی۔ اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونکی۔ اسے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑائی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیُّل کی بلندی اور شوخیٔ فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشِدّت سے محسوس کرتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت یے ہے کہ غالب کی ذاتی زندگی بھی تلخیوں اور محرمیوں کی زنجیر رہی۔ اسد اللہ خاں بیگ نے 27 دسمبر 1797 میں آگرہ میں جنم لیا۔ جب پانچ سال کے ہوۓ تو ان کے والد مرزا عبداللہ بیگ میدان جنگ میں گولی کا نشانہ بن گۓ۔ اسد اپنے چچا مرزا نصراللہ بیگ کے زیر کفالت آ گئے جو کہ تب آگرہ کے گورنر تھے۔ ان کے چچا نے بغیر لڑے آگرہ کا قلعہ انگریز لارڈ لیک کے حوالے کر دیا اور اس طرح وہ انعام میں انگریز فوج میں چار سو سواروں کے رسالدار مقرر ہو گے۔ گھر پر ننھے اسد اللہ کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا گیا ۔ فارسی اور عربی کے استاد مقرر کیے گئے۔فارسی کے استاد کا تعلق ایران سے تھا۔ کچھ عرصہ بعد اسد اللہ کے چچا بھی ہاتھی سے گر کے ہلاک ہو گئے۔ ان وقت اسد کی عمر آٹھ برس ہو چکی تھی ۔ چچا کی وفات کے بعد چچا انگریزوں نے اسد کی پینشن شروع کروائی جس سے انکی گزر بسر ہونے لگی۔
مرزا اسد کی عمر تیرہ سال ہو گئی تو آپ کی شادی 1810 میں مرزا الہی بخش معروف خاں کی بیٹی امرا ء بیگم سے ہو گئی جس کے بعد اسد دہلی منتقل ہو گئے اور وہاں وفات تک مقیم رہے۔ اسد نے ساعری کر کے پہکے اسد تخلص رکھا پھر اسی نام کے ایک اور شاعر منظر پر آۓ تو اپنا تخلص غالب رکھ لیا۔ غالب نے آگرہ میں کچھ وقت اپنے سسر کے زیر شفقت بھی گزارا جن سے غالب کی شاعری کے رجحان کو جلا ملی۔ ان کو شراب نوشی کی لت بھی سسر سے پڑی جو کہ تاعمر نہ چھوٹ سکی۔ دلی منتقل ہونے کے بعد غالب کے گھر کے اخرا جات بڑھ گئے اور روزگار کا کوئی سلسلہ نہ تھا۔ ایک پنشن کا سہارا تھا وہ بھی بند ہو گئی۔ اب قر ضہ چڑھنے لگا۔ مالی حالات بد تر ہونے لگے اس دوران امراء بیگم کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی جو چند سانسیں لے کر ملک راہی عدم ہوا۔ پریشانیوں نے غالب کو گھیر لیا تو انہوں نے یہ شعر کہا:
رنج سے خو گر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
غالب دن بھر شعر لکھتے اور رات بھر شراب پیتے۔ ظاہر ہے انہیں شاعری کے علاوہ اور کوئی کام آتا ہی نہیں تھا۔ اسی دور میں انہوں نے فرمایا:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن، پھر بھی کم نکلے
غالب کا یہ  شعر کچھ اتنا مشہور و معروف ہے کہ عام آدمی بھی اسے پڑھتا رہتا ہے۔ اس شعر کے مقبول ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ غالب نے انسان کے احساس اور جذبے کو چھُوا ہے۔ غالب شاعروں کی بھیڑ میں دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ غالب کی سب سے بڑی خوبی تو یہی ہے کہ وہ کسی بھی مضمون کو کچھ اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ قاری یا سامع خود بخود اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ اس بات کا خود غالب کو بھی اندازہ تھا کہ ان کا طرز اظہار دوسروں سے یکسرجداگانہ ہے اور وہ اپنے انداز بیان کا فخریہ اظہار بھی کرتے ہیں:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
ادب کی زبان میں مرزا غالب کو شہنشاہ سخن کہا گیا ہے۔ یہ قول سابقہ آمیز ہوتے ہوئے بھی حقیقت سے خالی نہیں ہے کیونکہ غالب نے جس صنف سخن پر بھی طبع آزمائی کی منفرد و ممتاز رہے۔ انھوں نے نہ صرف غزل کو ہی مشق سخن بنایا بلکہ دیگر اصنافِ سخن پر بھی طبع آزمائی کی۔ اس میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ غالب نے غزل کو دو آتشہ اور سہ آتشہ کی سی گرمی عطا کی۔ غالب کو زندگی کے سرد و گرم حالات سے سابقہ پڑا۔ زندگی کے نشیب و فراز دیکھے تھے۔ زندگی میں تلخ تجربات ہوئے تھے، معاشی سختیاں جھیلیں تھیں، لہٰذا ان تمام امور کی جھلکیاں ان کے کلام میں فطری طور پر نظر آتی ہیں:
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
غالب کی زندگی ٹیڑھی لکیر نظر آتی ہے۔ انہوں نے حالات و مصائب کا مقابلہ جوانمردی سے کیا۔ وہ ہموار دائرہ چھوڑ کر پیچیدہ پگڈنڈی پر چلنے کے عادی تھے اور یہ ہی انداز شاعری میں بھی اپنایا۔ پھر کمال یہ دکھایا کہ مشکل گوئی سے سادہ بیانی کی طرف ہجرت کی۔ انھوں نے منفرد لب و لہجے سے اردو شاعری کو نہ صرف بامِ عروج تک پہنچایا بلکہ اسے نئے طرز فکر او رنئے آہنگ سے روشنا س کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ سب سے منفرد رکھا اور یہ انفرادیت ان کی شاعری میں آج بھی نظر آتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button