سرگودھا کی پہچان ’’کینو‘‘ امریکی پھل کیوں کہلاتا ہے؟

پاکستانی ’’کینو‘‘ کو سرگودھا کے کے مشہور پھل کے طور پر جانتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ پھل پہلی مرتبہ کیلیفورنیا میں کاشت کیا گیا تھا، پاکستان میں سب سے زیادہ کاشت کیے جانے والا یہ پھل آج فیصل آباد، منڈی بہاؤالّدین، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ساہیوال، خانیوال اور ملتان میں بھی پیدا ہوتا ہے مگر ذائقے کے اعتبار سے سرگودھا کے میٹھے اور رسیلے کینو کا جواب نہیں۔پنجاب میں محکمہ زراعت کے شعبہ توسیع باغبانی کے ترجمان ڈاکٹر امجد حسین بتاتے ہیں،”پاکستان میں سٹرس یا تُرشاوہ پھلوں کی مجموعی سالانہ پیداوار تقریباً پچیس لاکھ ٹن ہے جس میں سب سے بڑا حصہ کینو کا ہے، انہوں نے ’’ڈی ڈبلیو اردو‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا ترشاوہ پھل پانچ لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کاشت کیے جاتے ہیں جن میں سے چار لاکھ ایکڑ پر محض کینو ہوتا ہے اور اس میں سرگودھا کا حصہ سوا دو لاکھ ایکڑ ہے۔ یوں صرف ذائقے یا معیار ہی نہیں بلکہ مقدار میں بھی سرگودھا سب سے آگے ہے۔کینو کا امریکہ سے لائل پور اور پھر سرگودھا تک کے سفر کے متعلق سرگودھا یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف ہارٹیکلچر سے وابستہ ڈاکٹر اظہر علی کہتے ہیں، یہ دراصل سٹرس یا ترشاوہ پھلوں کا خاندان ہے جس میں لیموں سے لے کر مالٹا، سنگترہ، فروٹر اور کینو وغیرہ سب شامل ہیں۔اظہر علی نے ’’ڈی ڈبلیو اردو‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا امریکہ کے کلچرل ڈیپارٹمنٹ نے اس کے پودے مختلف ممالک کو بطور تحفہ پیش کیے جن میں متحدہ ہندوستان کے شہر لائل پور کا زرعی کالج بھی شامل تھا، جسے اب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کہا جاتا ہے۔ ماہر لسانیات اور محقق ظفر سید نے اس حوالے سے ’’ڈی ڈبلیو اردو‘‘ کو بتایا کہ کینو کا لفظ بھی مقامی نہیں بلکہ اس کے پودے کی طرح یہ بھی برآمد کیا گیا اور ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا۔پاکستان فروٹ جرنل کے مطابق اٹھانوے فیصد سے زیادہ ترش پھل پنجاب میں کاشت کیا جاتا ہے جس میں ستر فیصد حصہ کینو کا ہے اور اس کا سب سے بڑا مرکز سرگودھا ہے۔ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے مقامی زمیندار اور زرعی سائنسدان میاں امجد اقبال کہتے ہیں، اصل چیز مٹھاس اور کھٹے پن کا امتزاج ہے۔ یہ دونوں ذائقے بظاہر ایک دوسرے سے متضاد ہیں لیکن کینو میں یک جا ہو جاتے ہیں اور یہ حسن امتزاج سرگودھا کے کینو جیسا کہیں نہیں۔ایک ننھے پودے سے برآمدات تک، کینو کن مراحل سے گزرتا ہے امجد اقبال اس بارے میں کہتے ہیں،”ایک بار باغ لگانے کے بعد صبر آزما انتظار شروع ہوتا ہے کیونکہ پہلی فصل پانچ سال بعد آتی ہے۔ اپریل میں پھول آتے ہیں جو آہستہ آہستہ پھل بنتے اور چھ سات ماہ بعد تیار ہو جاتے ہیں، امجد اقبال کے مطابق فصل تیاری کے بعد دو طرح کے ٹھیکے ہوتے ہیں۔ کسی فیکٹری کے ساتھ اور مقامی منڈیوں کے آڑھتیوں کے ساتھ۔ بعض لوگ کھڑا باغ بیچ دیتے ہیں۔ بعض خود مزدور لگا کر پھل اترواتے اور پھر بیچتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ سرگودھا میں پھلوں کوپراسس کرنے والے تقریباً تین سو سے زائد چھوٹے بڑے کارخانے ہیں۔ جہاں ہر سیزن میں فی کارخانہ اوسطاً سو کے قریب ورکر کام کرتے ہیں۔ باغ سے اتارے ہوئے پھلوں کی صحت اور سائز کے مطابق اسے اے یا بی کیٹیگری میں تقسیم کر لیا جاتا ہے۔ بی کیٹیگری ملک میں فروخت کے لیے رکھی جاتی ہے جبکہ اے کیٹیگری برآمد کی جاتی ہے۔پاکستان فروٹ جرنل کے مطابق پاکستانی کینو دبئی، روس، ملیشیا، بنگلہ دیش اور کینیڈا جیسے ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

Related Articles

Back to top button