کالے کوٹ والوں نے عمران کی تحریک انصاف کیسے ہائی جیک کی؟

1996 میں سابق کرکٹر عمران خان کے گھر جنم لینے والی تحریک انصاف اپنے قیام کے 27 برس بعد وکلاء کے ہاتھوں مکمل طور پر ہائی جیک ہو چکی ہے جس کے تمام مرکزی عہدیدار اور اس سے وابستہ تمام شناسا چہرے اب وکلا کے ہیں۔ تحریک انصاف کے مرکزی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان سے لے کر نیچے تک تمام مرکزی قیادت کالے کوٹ والے وکلا پر مبنی ہے جس کا یک نکاتی ایجنڈا بانی تحریک انصاف کی رہائی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار عمران خان اور انکی غلط پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں اب وہ خود جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور پارٹی ایسے وکلا کے ہاتھ لگ چکی ہے جنہیں تحریک انصاف کا حصہ بنے ابھی چند برس بھی نہیں ہوئے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے پارٹی کی وکلا قیادت نے خصوصا الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ بلنڈرز ہی ثابت ہوئے ہیں جن کا خمیازہ بھی کپتان کو ہی ادا کرنا پڑے گا۔

یاد رہے کہ جب 1996 میں عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تو ملک بھر سے ایسے لوگوں نے اس میں شامل ہونا شروع کیا تھا جو اس سے پہلے سیاست سے لاتعلق تھے یا سیاسی دلچسپی رکھتے تھے لیکن پہلے سے موجود جماعتوں میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ عمران خان نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی پرانی سیاسی جماعتوں اور بڑے سیاست دانوں کے خلاف ایجنڈے پر رکھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس وقت پہلے سے سیاسی میدان میں موجود لوگ ایک کرکٹر کی نوزائیدہ جماعت میں شامل ہونے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ لہٰذا ملک بھر سے سماجی کارکنوں، صحافیوں اور وکیلوں نے نئی جماعت میں اپنے لیے شاندار مستقبل کے امکانات تلاشنے شروع کیے اور ہر ضلعے سے یہ لوگ تحریک انصاف کا حصہ بننے لگے۔ عمران خان کی مرکزی ٹیم میں بھی ایسے ہی شعبوں سے لوگ موجود تھے۔ لیکن اسکے باوجود عمران کی پارٹی پہلے انتخابات میں ناکام ہو گئی۔ آنے والے برسوں میں بھی عمران کی جماعت کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سماجی شعبوں سے آنے والے یہ لوگ پارٹی چھوڑنا اور دوسری جماعتوں میں جانا شروع ہو گئے۔ یوں پی ٹی آئی کی شکل تبدیل ہوتی رہی۔

اس دوران پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو گود لینے کا فیصلہ کیا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ماضی میں فوج کے ہاتھوں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے والی دونوں بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے بار بار کی فوجی مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے مشرف دور میں چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کر لیا تھا۔ آئی ایس ائی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشاہ عمران خان کے پہلے سیاسی اتالیق اور کفیل مقرر ہوئے جنہوں نے انہیں وزیراعظم بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ بعد ازاں ادارہ جاتی پالیسی کے تحت آئی ایس آئی کے اگلے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے اس مشن کو جاری رکھا۔ چنانچہ عمران کے 2011 کے مینار پاکستان کے کامیاب جلسے کے بعد کئی نامی گرامی الیکٹیبلز بھی تحریک انصاف کا حصہ بننے لگے۔ اس دوران نواز شریف کو وزارت عظمی سے نااہل کر دیا گیا اور عمران خان کے اقتدار کے لیے سٹیج سیٹ کر دیا گیا۔ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستانی فوجی اور انٹیلیجنس اسٹیبلشمنٹ نے تاریخ ساز دھاندلی کرتے ہوئے عمران کی جماعت کو کامیابی سے نوازا اور انہیں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کروا دیا۔ فوجی قیادت کا خیال تھا کہ عمران خان بیک سیٹ ڈرائیونگ پر راضی ہو جائیں گے لیکن جنرل قمر جاوید باجوا کی امیدوں کے برعکس انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو اپنے ساتھ ملا کر فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنا شروع کر دیا جس کے بعد پی ڈی ایم حکومت کو تحریک عدم اعتماد داخل کرنے کی اجازت ملی اور یوں کپتان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔

تاہم عمران نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے 9 مئی 2023 کو اپنے جتھوں کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں جی ایچ کیو سمیت کور کمانڈرز کے دفاتر پر حملے کرنے کی سازش کی جس کا نتیجہ ایک بڑے کریک ڈاؤن کی صورت میں نکلا۔ چنانچہ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کی شکل ہی تبدیل ہو گئی۔ پی ٹی آئی کے خلاف شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اس کے درجنوں صف اول اور دوم کے رہنما پارٹی چھوڑ گئے اور حالات یہاں تک پہنچے کہ اس کا الیکشن تک لڑنا مشکل ہو گیا۔
ایسے میں عمران خان نے فیصلہ کیا کہ وہ 2024 کے انتخابات کے لیے زیادہ تر ٹکٹ وکلا کو دیں گے کیونکہ وکلا کے گرفتار ہونے اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

عمران خان کے اس فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی میں وکلا عملی طور پر آگے آ گئے اور نہ صرف انتخابات میں بڑی تعداد میں جیتے بلکہ عدالتوں اور میڈیا میں بھی تحریک انصاف کا چہرہ بن کر ابھرے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ سیاسی جماعتوں میں سے سب سے زیادہ وکیل رہنماؤں والی جماعت بن گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وکلا ماضی میں سیاست میں حصہ نہیں لیتے تھے، بلکہ ہر سیاسی جماعت فطری طور پر بڑے وکیلوں کو ساتھ رکھتی تھی کیونکہ آئینی اور قانونی معاملات میں ان کی رہنمائی لازم تھی۔ بالخصوص اعتزاز احسن، وسیم سجاد، بابر اعوان اور فاروق ایچ نائیک جیسے وکیل دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کا چہرہ تھے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں وکلا جس تعداد میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سامنے آئے ہیں، اس سے گمان ہوتا ہے کہ اس جماعت میں یہ کسی بھی دوسرے شعبے سے زیادہ ہیں۔ ان میں معروف وکلا سے لے کر ایک یونین کونسل سطح کے رہنما تک شامل ہیں۔

اسوقت بیرسٹر گوہر خان عمران خان کی جگہ تحریک انصاف کے مرکزی چیئرمین منتخب ہو چکے ہیں اور پارٹی چلا رہے ہیں۔ انہیں جماعت کے اندر سے دیگر وکلا کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ بیرسٹر گوہر علی خان باضابطہ طور پر 2022 میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ تاہم اس سے قبل وہ ایک وکیل کے طور پر پی ٹی آئی سے منسلک رہے۔ بیرسٹر گوہر اعتزاز احسن کے معاون ہیں اور انہی کے ساتھ انہوں نے وکالت اور سیاست کے رموز سیکھے۔ انہوں نے 2013 میں بونیر سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا تھا تاہم کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

اسی طرح حامد خان ایڈووکیٹ کا شمار پی ٹی آئی کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ پارٹی کے داخلی اتار چڑھاؤ اور عمران خان سے تعلقات کی بدلتی نوعیت کے باوجود پہلے روز سے اس کا حصہ ہیں اور آئینی و قانونی امور میں پارٹی کی رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے بھی سرخیل ہیں اور سپریم کورٹ میں پارٹی کے بیش تر مقدمات وہی لڑتے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے اندر ہونے والی ’پاور پالیٹکس‘ سے بھی خود کو فاصلے پر رکھا ہے اور حال ہی میں جب عمران خان کو پارٹی قیادت سے نااہل کر دیا گیا تو انہوں نے پیشکش کے باوجود پارٹی کی سربراہی قبول نہیں کی۔ حامد خان پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کے فرائض بھی سر انجام دے چکے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر مرحوم سینیئر سیاست دان ایس ایم ظفر کے بیٹے ہیں۔ ایس ایم ظفر ایک طویل عرصے تک مسلم لیگ کے رکن رہے اور متعدد بار سینیٹر بھی بنے۔
بیرسٹر علی ظفر بھی اہم مقدمات میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں بھی عمران خان نے ان کی عدم موجودگی میں پارٹی چیئرمین بننے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے یہ کہہ کر رد کر دی کہ چیئرمین کا عہدہ لینے کے بعد یہ ذمہ داری ان کے پیشہ ورانہ کام سے متصادم ہو گی۔ بیرسٹر علی ظفر پارٹی کے سینیٹر بھی ہیں اور انہوں نے تحریک انصاف کا وکلا ونگ انصاف لائرز فورم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

اسی طرح عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے اپنی شعلہ بیان بونگیوں سے شہرت حاصل کرنے والے شیر افضل مروت ایڈووکیٹ ستمبر 2023 سے قبل زیادہ معروف نہیں تھے۔ تاہم ایک ٹیلی وژن شو کے دوران مسلم لیگ نواز کے سینیٹر افنان اللہ خان کے ساتھ ہاتھا پائی کے بعد نہ صرف یہ کہ یہ جانی پہچانی شخصیت بن گئے بلکہ عمران خان کے بھی قریب ہو گئے۔
اس لڑائی کے بعد مختلف فورمز اور ٹاک شوز میں گفتگو کے دوران ان کی برجستہ اور دلچسپ جملے بازی نے انہیں پی ٹی آئی کے نوجوان سپورٹرز میں مقبول بنا دیا ہے۔ بدزبان اور بد لحاظ شیر افضل مروت نے اپنے کیرئر کا آغاز ایک سرکاری محکمے کے وکیل کے طور پر کیا اور بعد ازاں فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ سوسائٹی کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ وہ ایک پیشہ ور وکیل کے طور پر پی ٹی آئی کے قریب ہوئے اور پھر عمران خان کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہو گئے۔
اب ان کا نام پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف سے وابستہ ایک اور معروف وکیل رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے 9 مئی 2023 کے بعد تب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جب اس کے بہت سارے لیڈرز پارٹی چھوڑ کر جا رہے تھے اور اس واقعے کی مذمت کر رہے تھے۔ شعیب شاہین ابتدا میں پی ٹی آئی کے مقدمات لڑ رہے تھے تاہم 9 مئی کے واقعے کے بعد یہ پارٹی کا باقاعدہ حصہ بن گئے اور عمران خان نے انہیں ترجمان مقرر کر دیا۔
انہوں نے مشکل وقت میں پارٹی کا دفاع کیا اور پارٹی کے ٹکٹ پر اسلام آباد سے الیکشن لڑا تا ہم کامیاب نہ ہو پائے۔

سپریم کورٹ کے معروف وکیل سلمان اکرم راجہ بھی ابتدا میں بطور وکیل تحریک انصاف کے ساتھ منسلک ہوئے لیکن بعد میں اس کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا۔ ان کو تحریک استحکام پاکستان کے عون چوہدری کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ بیرسٹر سلمان راجہ اب تحریک انصاف کے ہر احتجاج میں شامل ہوتے ہیں اور متعدد بار مختصر دورانیے کے لیے گرفتار ہو چکے ہیں۔

بیسٹر لطیف کھوسہ جو ماضی میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور آصف زرداری کے انتہائی قریب رہ چکے ہیں، رواں سال کے انتخابات سے کچھ ہی عرصہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور اس کے ٹکٹ پر لاہور سے خواجہ سعد رفیق کو الیکشن میں ہرا کر قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ لطیف کھوسہ بھی آغاز میں بطور وکیل پی ٹی آئی کے مقدمات میں پیش ہوتے تھے اور بعد میں ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔
معروف وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اس وقت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے بیش تر مقدمات میں پیش ہو رہے ہیں۔ وہ بھی اس وقت پارٹی کا باقاعدہ حصہ ہیں اور اس کی قانونی ٹیم کے اہم ترین اراکین میں سے ہیں۔

ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کے قریب رہنے والے اور ان کے مقدمات لڑنے والے ڈاکٹر بابر اعوان بھی اب پی ٹی آئی کا حصہ اور اس کی قانونی ٹیم کے رکن ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ پی ٹی آئی کے مرکزی وکیل ہوتے تھے تاہم اب یہ کسی حد تک پس منظر میں ہیں۔

نعیم اور انتظار پنجوتھہ پی ٹی آئی میں پنجوتھہ برادرز کے طور پر جانے جاتے ہیں اور پارٹی کے پرجوش وکیل ہیں۔ یہ اس وقت پی ٹی آئی کے کئی مقدمات کی مکمل ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی پاکستان کی تقریباً تمام بارز اور مقامی وکیل تنظیموں کے ہزاروں اراکین پی ٹی آئی کا حصہ ہیں اور ملک کے طول و عرض میں اس کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button