عمران خان پاک چائنہ CPEC پراجیکٹ کی ناکامی کیوں چاہتا ہے؟

پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کا واحد ذریعہ سی پیک ہے ۔عمران خان کی حکومت کا پہلا اعلامیہ یہ تھاکہ ’’ہم سی پیک چند سال کیلئے بند کر رہے ہیں،اب شہباز شریف کی حکومت نے قائم ہوتے ہی سی پیک کو دوبارہ شروع کرنیکا عزم دُہرایا ھے تو بدنصیبی سے ایک دفعہ پھر سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کُلی ذمہ داری عمران خان کے مضبوط کندھوں پر آن پڑی ہے۔عمران خان ٹولہ IMF میں شاندار ناکامی کے بعد سی پیک رکوانے کیلئے اپنے ترکش کے سارے تیر استعمال کرنے کو تیار ہے ۔جس کے لئے امریکہ اور بھارت سےمدد انہیں میسر ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ اللّہ خان نیازی نے اپنے ایک کالم میں کیا ھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ نواز شریف کے دورِ حکومت میں چین کے اشتراک سے جب سی پیک منصوبے کی داغ بیل ڈالی گئی تو یقین تھا کہ یہ ریاست کو چار چاند لگائے گا ۔ مملکت کے پروان چڑھنے کا شاید یہ آخری موقع تھا ۔ اس وقت کئی با ر کہا گیا کہں چین سی پیک منصوبہ ہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچائے گا جبکہ امریکہ کسی صورت اسے نہیں بننے دے گا ۔ اگرچہ سی پیک کی پلاننگ ایک عرصہ سے جاری تھی، مگر 2014میں پلک جھپکتے اِس پرعملدرآمد شروع کرنے کی ٹھانی گئی۔ دونوں ممالک کا عزم تھا کہ سی پیک کا پہلا فیز 2020 تک مکمل ہو جائیگا۔ پاکستان کے وارے نیارے تھے ۔ مگر بد نصیبی کہ سی پیک بھی بن کھلے مرجھا گیا کہ’’ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے ‘‘۔
حفیظ اللّہ خان نیازی بتاتے ہیں کہ اکتوبر 2021 میں چینی صدر کے دورے سے 2 ماہ پہلے اسٹیبلشمنٹ کی تھپکی پر’’ دو مہرے‘‘ ڈی چوک اسلام آباد پہنچ گئے۔ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے ہر ہنر آزمایا گیا۔چند ہزار کے جتھے نے نواز حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ نواز حکومت کی جانفشانی تھی کہ ، 2017میں اقتدار قربان کر دیا ، سی پیک کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا۔2016 میں عسکری قیادت کی تبدیلی سے اتنا فرق پڑا کہ’’نواز شریف ہٹاؤ‘‘پروجیکٹ جُز وقتی سے ہمہ وقتی ہو گیا۔ نواز شریف کو اقتدار سے نکالنا، ادارے کی انا کا مسئلہ بن گیا ۔ 2018 کے متنازع الیکشن کے ذریعے بالآخر’’ پروجیکٹ نواز ہٹاؤ‘‘ کامیابی سے ہمکنار ہوا تو قطع نظر اس کے کہ نواز شریف جیل میں تھے ،امریکہ اور یورپ نے الیکشن دھاندلی اور نواز شریف کی قید کو نظر انداز کئے رکھا کیوں کہ انہی کے مفادات ہی تو پروان چڑھ رہے تھے۔ الیکشن 2018 کے بعد سی پیک کا کھڈے لائن لگنا، منطقی نتیجہ تھا۔ عمران حکومت نے پلک جھپکتے سی پیک معاہدوں کی تفصیلات امریکہ کے حوالے کر دیں ، یوں امریکہ خوش و مطمئن ہوا ۔
حفیظ اللّہ خان نیازی کے مطابق نواز شریف کو کریڈٹ دینا ھو گا کہ 28مئی 1998اورسی پیک پر امریکہ کو دوبار ABSOLUTELY NOT” "کہا، دونوں بار اپنا اقتدار گنوا دیا مگر پاکستان کے مفادات کا سودا نہ کیا۔ عمران کے ABSOLUTELY NOT” ” سے نواز شریف کا ABSOLUTELY NOT” ” مختلف تھا ۔ ایک تصوراتی جبکہ دوسرا ایک مسلمہ حقیقت تھی۔ مارچ 2022 میں عمران نے حکومت جاتے دیکھی تو امریکی مراسلہ کا شوشہ چھوڑا،معلوم تھا کہ سائفر بیانیہ جھوٹ اور ڈھکوسلا تھا ۔ البتہ جھوٹ سے سیاست میں جان پڑ گئی ۔ آج تک انصافی دال روٹی میں’’سائفر ڈش‘‘ لازمی جزو ہے ۔
تحریک انصاف کو اندازہ ہے کہ امریکہ اور دوسرے دشمن پاکستان کو افراتفری اور انارکی میں دھکیلنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں ۔ اس پس منظر میں ” سائفرا سکینڈل ” کو توانا رکھنے کیلئے PTI نے امریکہ میں کروڑوں ڈالر لابنگ کمپنیوں اور سوشل میڈیا پر خرچ کرڈالے ہیں ۔ ڈالروں کے زور اور محنت مشقت کیساتھ امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس بلوایا اور اجلاس سے ہزاروں اُمیدیں وابستہ رکھیں۔ امریکہ میں یہ رواج عام کہ آپ پارلیمان ممبران کو فنڈ دیکر اپنی مصنوعات یا سیاست کی لابنگ کر تے ہیں ۔ دام برائے کام ،کے تحت بوقت ضرورت اپنی مرضی کے سوالات کروائے جاتے ہیں ۔ ازراہ تفنن اس کام کیلئے PTI نے جو کروڑں ڈالر اکٹھے کئے ، PTI کے کرتا دھرتا’’سجاد بَرکی‘‘پر ان میں سے 2 ملین ڈالر کے خُرد برد کا الزام بھی لگ چکا ۔
حفیظ اللّہ نیازی بتاتے ہیں کہ 20 مارچ کو امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تو ڈونلڈ لُو پر سائفر کے حوالے سے جرح ہوئی ۔ ڈونلڈ لُو نے بغیر الفاظ چبائے کہا کہ ’’سائفر پر عمران خان کا موقف جھوٹ اور محض ڈھکوسلا ہے‘‘۔ جب کانگریس ممبران نے عمران خان کے حق میں تیکھے سوالات کی بوچھاڑ کی تو انصافیوں نے ڈونلڈ لُو کے جواب کی بجائے اُن سوالات کو بذریعہ سوشل میڈیا پھیلایا کہ دھوکہ دہی کا کاروبار ہمیشہ سے منفعت بخش ہے۔ ایسے سوالات پر گیلری میں موجود انصافیے نعرہ تکبیر بلند کرتے نظر آئے ۔اب ذرا سوالات کرنیوالے امریکی ممبران کے اوصاف حمیدہ پر نظر ڈالیں ۔مشترکہ صفات میں پاکستان مخالفت ، مسلمانوں سے نفرت ، صہیونیوں کے پروردہ ، اسرائیل کے ٹاؤٹ ،ان کی وجہ شہرت ہے ۔ مثلاً مائیکل میک کال ، آگست فلوگر اور بریڈ شرمین کے پاکستان ، ایران ، یمن سول وار اور حالیہ فلسطینی قتل عام پر زہرآلود اور شر انگیز بیانات کی بھرمار موجود ہے ، ۔
حفیظ اللّہ خان نیازی کا کہنا ھے کہ انصافیوں کے نزدیک وطنی مفادات ، عمران خان مفادات کے سامنے ثانوی ہیں ۔ پاکستان کے اقتصادی بحران سے نبٹنے کا سب سے بڑاہتھیار سی پیک جبکہ بحران سے دوچار رکھنے کیلئے سی پیک کی بندش ضروری ہے ۔عمران خان ٹولہ پھر سے سی پیک کو روکنے کیلئے جُت چکا ہے ۔ سی پیک کو روکنا ، عمران خان کی سیاست اور امریکی، بھارتی مفادات کی اشد ضرورت ہے ۔ ،
’’ہوئے تم دوست جسکے
دشمن اسکا آسماں کیوں ھو گا؟

Related Articles

Back to top button