اقلیتیں اور ہم

تحریر: حماد غزنوی ۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ

والد صاحبؒ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں پروفیسر تھے اور ہم اسٹاف کالونی میں رہا کرتے تھے۔ یہ 1974ءکی ایک شام کا قصہ ہے، ایک دوست نے اطلاع دی کہ یونیورسٹی کے درجنوں طلباء ایک بپھرے ہوئے جتھے کی صورت میں کوٹھی نمبر 2 کے باہر اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ہوسِ تماشا کا شکار، ہم بھی دو دوستوں کے ہم راہ جائے وقوعہ کی طرف پیدل روانہ ہو گئے۔کوٹھی نمبر دو میں یونیورسٹی کے ریاضی کے سینئر پروفیسر اصغر حمید صاحب رہا کرتے تھے، جن کا تعلق احمدیوں کے لاہوری گروہ سے تھا۔ ہم جب وہاں پہنچے توجمعیت کے ایک طالبِ علم راہ نما اکمل جاوید کی قیادت میں پروفیسر صاحب کی گاڑی (ہل مین) کو پورچ سے باہر نکال کر اُلٹا کیا جا رہا تھا، پھر گاڑی پر تیل چھڑکا گیا، اور نذرِ آتش کر دیا گیا۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی نے اچھی طرح آگ پکڑ لی اور شعلے فضا میں بلند ہونے لگے۔ اسی دوران کچھ لڑکے گھر کا صدر دروازہ دھڑدھڑانے لگے۔ یک دم مجمعے میں سے کسی نے اونچی آواز میں اعلان کیا ’’کوئی گھر میں داخل نہ ہو، اندر عورت ذات ہے‘‘۔ (پروفیسر صاحب کی چارنو جوان بیٹیاں تھیں) لڑکے دروازے سے پیچھے ہٹ آئے۔ تھوڑی دیر میں طلباء کا وہ گروہ روانہ ہو گیا، اور جلتی ہوئی گاڑی کے آس پاس دھویں میں لپٹے کچھ تماش بین رہ گئے۔ بہ طور چشم دید گواہ، ہماری زندگی میں گروہی تشدد کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اسی لیے یہ منظر ہمارے حافظے میں کُھدا ہوا ہے۔

اُس شام یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ جلتا ہوا منظراب زندگی بھر ہمارے ساتھ چلے گا، یہ آگ پھیلتی چلی جائے گی، دھویں کے بادل گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔ بے سروپا قوانین بنتے چلے گئے، اقلیتیں سہمتی چلی گئیں۔ یہ درست ہے کہ ریاست نے سال ہا سال اپنے کوتاہ سیاسی و معاشی مقاصد کے حصول کے لیے معاشرے میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کے فروغ کا اہتمام کیا، کبھی جہاد کے نام پر کبھی اسلامی نظام کی آڑ میں۔ مذہب کے نام پر ایسی قانون سازی کی گئی جس کی آڑ میں اقلیتوں کا استحصال یقینی بنایا گیا اور انہیں عملی طور پر دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت دے دی گئی۔

اب یہ زہریلی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے، ’توہین‘ مذہب کے کچھ قوانین ہیں جن کااستعمال قریباًسو فی صد مذموم مقاصد کے تحت کیا جاتا ہے اور اس کا نشانہ بننے والے اکثر افراد کا تعلق اقلیتی گروہوں سے ہوتا ہے۔ ایک پیٹرن ہے، جسے سینکڑوں بار دہرایا جا چکا ہے۔ ہزاروں ایسے کیسز ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں کسی غیر مسلم سے کسی مسلمان کا کوئی معاشی، سیاسی یا معاشرتی تنازع ہو جاتا ہے۔ اور پھر اس غیر مسلم پاکستانی پر توہینِ مذہب کا کوئی الزام لگا دیا جاتا ہے۔ الزام لگانے میں بھی کسی ’تخلیقی صلاحیت‘ کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ ہر بار وہی الزام، مقدس اوراق جلائے ہیں یا مقدس ہستیوں کی توہین کی ہے۔ حتٰی کہ ایک گونگے غیر مسلم پر بھی یہ الزام لگ چکا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی مقدس ہستیوں بارے ’بدزبانی‘ کی ہے۔ ایف آئی آر کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ اس شخص نے یہ ’ بدزبانی‘ اشاروں میں کی تھی۔ تو ہین کا الزام لگانے کے بعد علاقائی مساجد سے اکثر اعلان بھی کروایا جاتا ہے کہ ’دین کی حرمت‘ کے پروانے گھروں سے نکل آئیں ورنہ قیامت کے روز کیا جواب دیں گے۔ ملزم اگر خوش قسمت ہو تو ’پروانوں‘ سے بچ نکلتا ہے ورنہ جہنم واصل کر دیا جاتا ہے، اور قاتل جنت کے پروانے لے کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔اور اگر ملزم گرفتار ہو جائے تو اس کووکیل نہیں ملتا۔ اس کا کیس کوئی جج نہیں سننا چاہتا اور اگر سن لے تو انصاف کرنے سے ڈرتا ہے۔یہ ہر روز کا معمول ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے۔ مگر سب خاموش ہیں، سب کو جان پیاری ہے۔ انسانیت ہار رہی ہے، وحشت کا بول بالا ہے۔قانون کی اصلاح کی بات کی جائے تو تلواریں بے نیام ہونے لگتی ہیں۔ ضیاالحق دور میں پینل کوڈ میں شامل ہونے والے توہین کے ایک قانون کو الہامی درجہ دے دیا گیا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کی نوے فی صد سیاست ’توہین‘ کے قانون کے گرد گھومتی ہے۔ ایک قانون جس نے پاکستان کی 3.53 فی صد اقلیتی آبادی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ بہرحال، یہ غلط فہمی نہیں ہونا چاہیے کہ توہین کا الزام فقط غیر مسلموں تک محدود ہے۔ مسلمان آپس میں بھی یہ ’کھیل‘ کھیلتے ہی رہتے ہیں۔

صرف ایک جنید حفیظ کے کیس سے ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے، جو 2013 سے توہین کے الزام میں جیل میں قیدِ تنہائی کاٹ رہا ہے۔ عدالت کے سات جج اپنے تبادلے کروا کر نکل لیے۔ جنید حفیظ کے وکیل کو قتل کر دیا گیا۔ 2019 میں اسے سزائے موت سنائی گئی اور آج تک کسی اعلیٰ عدالت میں اُس کی اپیل ہی نہیں سنی گئی۔ جنید حفیظ کے خلاف کیس ایک مذہبی تنظیم کی تحریک پر بنایا گیا تھا، جس کے پیچھے لیکچرر شپ کی اسامی کا کوئی جھگڑا بتایا جاتا ہے۔ یہ ہے ایک گولڈ میڈلسٹ، فل برائٹ اسکالر، امریکا سے تعلیم یافتہ، بہاالدین ذکریا یونیورسٹی کے پروفیسر کی دل خراش داستان۔ فضا خون آشام ہے۔ پچھلے دنوں اچھرہ لاہور میں کچھ جنونی ایک عورت کو اس لیے قتل کرنا چاہتے تھے کہ اُس کے لباس پر اعراب کے ساتھ ’حلوہ‘ لکھا ہوا تھا جس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی۔

اس تحریر کی شانِ نزول پچھلے ہفتے سرگودھا میں ہونے والا ایک واقعہ ہے جس میں ایک مذہبی جماعت کے اکسانے پر ایک ڈنڈا بردار ہجوم نے ایک عیسائی کو شدید زخمی کر دیا   اور اس کے گھر کو آگ لگا دی۔ اس پر الزام تھا کہ اُس کے گھر کے باہر جلے ہوئے مقدس اوراق ملے ہیں۔ ریاست، اور مذہب کے دکان داروں نے اس بیمار دماغی ساخت کی آبیاری میں دہائیاں خرچ کی ہیں۔ ہماری نسلیں اس آگ میں جھونک دی گئی ہیں۔کیا یہ آگ بجھانے میں بھی نسلیں لگیں گی؟

Back to top button