نواز شریف کا پارٹی صدارت پر دوبارہ انتخاب اور ’’ تخت یا تختہ‘‘والی سیاست

تحریر:نصرت جاوید۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت 

ملکی سیاست میں دلچسپی رکھنے والا ہر شخص خواہ وہ نواز شریف کا حمایتی ہو یا بدترین مخالف یہ جاننا چاہے گا کہ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے کے بعد وہ عمر کے اس حصے میں فقط اپنی جماعت کی صدارت سنبھالنے کو آمادہ کیوں ہوئے۔ گزشتہ برس لندن میں طویل جلاوطنی گزارنے کے بعد نواز شریف جب وطن واپس لوٹے تو ان کی جماعت نے امید ہمیں یہ دلائی تھی کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم کا منصب سنبھال کر تاریخ بنائیں گے۔ نظر بظاہر ان کو مذکورہ منصب پر بٹھانے کا سٹیج بھی سج چکا تھا۔ ان کے بدترین مخالف یعنی عمران خان تحریک انصاف کی سینئر قیادت سمیت جیلوں میں بند ہوئے کئی مقدمات کا سامنا کررہے تھے۔ انتخابی اکھاڑے میں کم از کم پنجاب کی حد تک ان کی جماعت کسی مشکل کا سامنا کرتی نظر نہ آئی۔ اس کے باوجود 8فروری 2024ء کا دن چڑھتے ہی پشاور سے کراچی تک تحریک انصاف کے حامی حیران کن تعداد میں گھروں سے نکلے اور اپنے قائدکے حمایت یافتہ امیدواروں کے بیلٹ پیپروں پر انتخابی نشان ڈھونڈے۔ ان پر مہر لگائی اور گھر لوٹ آئے۔
کسی جماعت کے لئے دیوانہ وار محبت کی انتخابی عمل کے دوران ٹھوس اظہار کی ہماری سیاسی تاریخ میں یہ دوسری مثال تھی۔ اس سے قبل 1970ء میں پیپلز پارٹی کو ان دنوں کے مغربی پاکستان اور خاص کر پنجاب میں ایسی ہی پذیرائی نصیب ہوئی تھی۔ تحریک انصاف کے ساتھ دکھائی محبت اس سے بھی زیادہ شدید اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان -بلا- سے محروم کردیا گیا تھا۔ اس کے حمایت یافتہ امیدوار ہر حلقے سے مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ حصہ لے رہے تھے۔
فارم 45یا 47کی بحث میں الجھنے سے گریز کرتے ہوئے فی الفور تسلیم کرلیتے ہیں کہ 8فروری کے روز جو ووٹ ڈالے گئے ان کی ’’گنتی‘‘ میں گھپلے نہیں ہوئے۔ یہ تسلیم کرنے کے بعد بھی یہ حقیقت بھلائی نہیں جاسکتی کہ ووٹ گنے جانے کے بعد مسلم لیگ (نون) نہیں بلکہ تحریک انصاف واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھری تھی۔ اپنی شناخت سے محرومی نے اس جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہونے کومجبور کیا۔ اصولی طورپر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ واحد اکثریتی جماعت کی صورت ابھرنے کے بعد سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہوئی تحریک انصاف دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا آغاز کرتی اور حکومت سازی میں دلچسپی کا اظہار کرتی۔ وہ مگر فارم45اور 47کی دہائی مچانا شروع ہوگئی۔ اس دہائی کی بدولت پیدا ہوئے خلا نے مسلم لیگ (نون) کیلئے پیپلز پارٹی کی مدد سے حکومت سازی کی جانب بڑھنے کی راہ بنائی۔
دیگر جماعتوں کی حمایت پر کامل انحصارمستحکم حکومت کے قیام کی ضمانت نہیں۔ اسی باعث وزارت عظمیٰ کے منصب پر چوتھی بار لوٹنے کے بجائے نوازشریف نے اپنے برادر خورد شہباز شریف کو حکومت سازی کا حکم دیا۔ موصوف نے تعمیل کی۔ مجھ جیسے سادہ لوح نے اس کی وجہ سے یہ فرض کرلیا کہ 8 فروری کے روز ہوئے انتخاب نے نواز شریف کا دل توڑ دیا ہے۔ وہ بتدریج سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اب پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے کھیلتے ہوئے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں گے۔ یوم انتخاب کے چند روز بعد نواز شریف اپنے رویے سے میری اس سوچ کی تصدیق کرتے نظر آئے۔ اس کے بعد نجانے کیا ہوا کہ وہ سیاسی اعتبارسے ایک بار پھر متحرک ہونے کو آمادہ ہوگئے اور اب مسلم لیگ (نون) کی کمان بھی سنبھال لی ہے۔
جس جماعت کی صدارت پر وہ منگل کے دن لوٹے ہیں ان کے نام سے منسوب ہے۔ نظر بظاہر منگل کے دن حق بحق دار رسید والا معاملہ ہوگیا۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ 8 فروری کے روز آئے نتائج سے دل شکستہ ہونے کے باوجود نواز شریف اپنے نام سے منسوب جماعت کی صدارت کے منصب پر لوٹ کر سیاسی اعتبار سے ایک بار پھر متحرک ہونے کے بعد کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے میں نے بہت توجہ سے نواز شریف کے اس خطاب کو سنا جو انہوں نے منگل کی سہ پہر مسلم لیگ (نون) کی صدارت پر لوٹنے کے بعد اپنے کارکنوں کے روبرو کیا۔ نہایت ادب سے یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ مجھے ان کے خطاب نے مایوس کیا۔
سیاسی رہ نماہمیں خوش گوار مستقبل کے نقشے دکھاکر ان کا ساتھ دینے کو اْکساتے ہیں۔ نواز شریف مگر ماضی ہی کے اسیر سنائی دئے۔ بھول نہیں پائے ہیں کہ 2017ء میں انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ایک گہری سازش کے ذریعے ہٹایا گیا تھا۔ ثاقب نثار جیسے جج ریاست کے طاقتور عناصر کی جانب سے نواز شریف کے خلاف لگائی گیم کا محض ایک مہرہ تھے۔ سوائے ایک فرد کے میاں صاحب نے تاہم ریاستی اداروں میں بیٹھ کر ان کے خلاف گیم لگانے والے دیگر افراد کے نام نہیں لئے۔یوں محسوس ہوا کہ ان کے لئے عام معافی کا اعلان کئے بغیر درگزر کا رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
صدارت کا منصب اپنے بھائی کے سپرد کرنے سے قبل مگر وزیر اعظم شہباز شریف ایک طویل وقفے کے بعد جذبات سے مغلوب سنائی دئے۔ ان کا خطاب ’’چند ججوں‘‘ کو عمران خان کی محبت میں گرفتار ہونے کا الزام بھی دیتا رہا۔ عدلیہ کے چند کرداروں کے نام لئے بغیر وطن عزیز کے انتظامی سربراہ ہوتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف ریاستی ستون کے مابین کشیدگی کا اعتراف کرتے سنائی دئیے۔ اسے ٹھنڈا کرنے کے بجائے ’’آخری معرکہ‘‘ کیلئے تیاربھی نظر آئے۔ ان کی تقریر نے مجھ بزدل کو موجودہ سیاسی بندوبست کے مستقبل کے بارے میں فکر مند کردیا ہے۔ وطن عزیز مزید ابتری کی جانب بڑھتا محسوس ہورہا ہے۔
ایسے حالات میں تقریباََ گوشہ نشین ہوئے نواز شریف کا مسلم لیگ (نون) کی صدارت پر لوٹ کر سیاسی اعتبار سے متحرک ہونا مجھے حیران کرگیا۔ ان کی تقریر میری حیرانگی کو احمقانہ سادگی ثابت کرسکتی تھی۔ اس نے مگر پریشان کردیا۔ نواز شریف صاحب کو آپ پسند کریں یا ان سے نفرت۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ اس وقت وہ پاکستان کے سینئر ترین سیاستدان ہیں۔ 1980ء کی دہائی سے ایوان ہائے اقتدار کی تمام رمزوں سے مسلسل آگاہ رہے ہیں۔ کاش مجھے وہ اپنے خطاب کے ذریعے یہ سوچنے کو مجبور کرتے کہ پاکستان ریاستی اداروں کے مابین تخت یا تختہ والے معرکوں کی جانب نہیں بڑھ رہا۔ ان جیسا انتہائی تجربہ کار سیاستدان اگر 8فروری کے نتائج کے باوجود مسلم لیگ (نون) کی صدارت سنبھالنے کو آمادہ ہوا ہے تو یہ اس امر کا عندیہ ہے کہ پاکستان عدم استحکام کی جانب نہیں بلکہ مستحکم سیاسی بندوبست کی بدولت معاشی اعتبار سے بھی امید بھرے ماحول کی جانب بڑھ رہا ہے۔

Back to top button