پاکستانی خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی کنٹرول کرنے میں ناکام کیوں؟

اگر ریاست پاکستان کو خفیہ ایجنسیوں کی ملکیتی ریاست کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان ایک سیکورٹی سٹیٹ بن چکی یے جہاں صرف خفیہ والوں کا سکہ چلتا ہے۔ تاہم افسوس کہ اتنی تگڑی خفیہ ایجنسیاں ہونے کے باوجود ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی قابو میں نہیں آ رہی۔

سلیم صافی اپنی ایک تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں آئی ایس آئی جیسی طاقتور خفیہ ایجنسی موجود ہے جو وسائل کے لحاظ سے پاکستان کا مضبوط ترین اور بااختیار ادارہ ہے اور جس کا شمار دنیا کی بڑی اور بہترین خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں انٹیلی جنس بیورو جیسی توانا اور باوسائل خفیہ ایجنسی بھی کام کر رہی ہے۔ اس کے کارندے نہ صرف کراچی تا چترال پھیلے ہوئے ہیں بلکہ بیرون ملک بھی اس کے کارندے کام کر رہے ہیں۔ یہاں فوج کے زیرسایہ ملٹری انٹیلی جنس بھی کام کر رہی ہے۔ اسی طرح ایئرفورس اور نیوی کا انٹیلی جنس کا اپنا الگ نظام ہے۔ پھر ہر کور ہیڈکوارٹر میں کور انٹیلی جنس کے ذریعے بھی معلومات جمع کرنے کا الگ نظام ہے۔ صوبائی حکومتوں اور پولیس کو باخبر رکھنے کیلئے مرکز اور چاروں صوبوں میں سپیشل برانچ کے نام سے خفیہ ادارے قائم ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں افراد اس سے وابستہ رہتے ہیں۔ اسی طرح ہر بڑے ادارے میں انٹیلی جنس کے الگ ادارے کام کر رہے ہیں۔ مثلاً کسٹم میں انٹیلی جنس کا الگ محکمہ ہے۔ اسی طرح اے این ایف کی مخبری کا الگ نظام ہے۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ پاکستان کے خفیہ ادارے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک کے انٹیلی جنس اداروں کی طرح جدید ترین آلات سے لیس نہیں ہیں لیکن یہ تیسری دنیا کے اداروں کی طرح پسماندہ بھی نہیں۔ پاکستان چونکہ سرد جنگ کے دنوں میں بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ رہا اس لیے، امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کے جاسوسی آلات تک نہ صرف ہمارے خفیہ اداروں کی رسائی ہو گئی بلکہ انھیں یہ آلات میسر بھی آئے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے خفیہ ادارے ملک میں امن و امان کی فضا کو برقرار رکھنے اور جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے میں یکسر ناکام واقع ہوئے ہیں۔ خیبر تا کراچی دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ خودکش دھماکے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ مذکورہ ادارے موجود اور سرگرمِ عمل تھے لیکن ان کے ہوتے ہوئے جنوبی وزیرستان کی یہ اور سوات کی وہ حالت ہو گئی۔ قبائلی علاقوں کی ابتر صورتِ حال ہو یا پھرپختونخوا میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال، کراچی میں بدامنی ہو یا پھر کوئٹہ میں دہشت گردی کی واردات، ہر جگہ ہمارے حکمران یہ عذرپیش کرتے رہتے ہیں کہ ان میں ’’را‘‘ اور دیگر ممالک کے خفیہ ادارے ملوث ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب ’’را‘‘ جیسے اداروں کے اہلکار ہندوستان سے آکر ہماری سرزمین پر اپنے لیے کارندے تیار کر رہے ہیں تو ہماری خفیہ ایجنسیاں اپنے ہی ملک میں ان کا راستہ کیوں نہیں روک سکتیں؟

زبردستی بھیک منگوانا ناقابل ضمانت جرم قرار، قانون میں ترمیم منظوری کےلیے کابینہ کو ارسال

 

سلیم صافی کہتے ہیں کہ ایسا ہر گز نہیں کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار نااہل یا پھر نان پروفیشنل ہیں۔ ان اداروں نے ماضی میں سوویت یونین کی ’’کے جی بی‘‘، ہندوستان کی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی ’’موساد‘‘ جیسی خفیہ ایجنسیوں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انھیں شکست سے بھی دوچار کیا۔ اب بھی پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی ٹریننگ اعلیٰ ترین پروفیشنل بنیادوں پر ہوتی ہے۔ اب بھی ان اداروں میں ہزاروں کی تعداد میں محبِ وطن اور باصلاحیت افراد موجود ہیں لیکن ان خفیہ اداروں کو ان کا اصل کام کرنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ ان اداروں کا اصل کام ملک دشمن اور جرائم پیشہ افراد کی نگرانی اور مخبری ہے۔ ان کا کام دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں کو ناکام کرنا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے اندر انھیں بہت کم اپنی اس اصل ڈیوٹی کو سرانجام دینے کی فرصت میسر آتی ہے۔ یہاں ان اداروں کو سیاست میں ملوث کیا گیا ہے۔ کبھی یہ ادارے مسلم لیگ(ق) بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ کبھی یہ پیپلز پارٹی کے اندر پیٹریاٹ بنانے میں مگن رہتے ہیں۔ کہیں انھیں ریفرنڈم کرانا اور اس میں حکومت پر قابض شخصیت کو کامیاب کرانا ہوتا ہے تو کبھی انھیں انتخابات میں بعض جماعتوں کو کامیاب کروانے اور بعض کو ناکام کروانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اور ماشاء اللہ یہ تمام فرائض ہمارے یہ ادارے بخوبی انجام دیتے رہتے ہیں۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ ان اداروں نے ملک کے اندر چلنے والی ہر سیاسی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انہی اداروں نے آئی جے آئی جیسے اتحاد تخلیق کیے۔ انہی اداروں کے کمالات سے راتوں رات مسلم لیگ (ق) تشکیل پائی۔ ان کی برکتوں سے مسلم لیگ (ق) جیسی نوتخلیق شدہ جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہوتی رہیں۔ ان اداروں نے عمران خان کو بڑی مشقتوں سے لیڈر بنا کر وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچایا لیکن دوسری طرف یہ ادارے آج تک یہ معلوم نہ کر سکے کہ پاکستان توڑنے کے ذمہ دار کون ہیں؟ جنرل ضیاء اور ان کے ساتھ طیارے میں سوار دیگر جرنیلوں کا قاتل کون ہے؟ بے نظیر بھٹو کو کس نے قتل کیا اور مرتضیٰ بھٹو کس کے اشارے پر کس کی گولی کا نشانہ بنے؟۔ اسامہ بن لادن کیسے ایبٹ آباد میں رہ رہے تھے ۔ وغیرہ ۔ یا پھر شائد ان اداروں نے معلوم کیا ہوگا لیکن ان تحقیقات کو قوم کے سامنے نہیں لایا جارہا ۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ مختصرا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی بھی حوالے سے کسی سے کم نہیں ۔ ان کے بعض لوگوں نے قربانیوں کی بھی لازوال داستانیں رقم کیں ۔ وہ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری جیسے حیرت انگیز سٹنگ آپریشن بھی کرلیتی ہیں لیکن اگر وہ دہشت گردی کے مسئلے پر مکمل قابو نہیں پا سکیں تواسکی ایک بڑی وجہ یہ ہےکہ ان خفیہ ایجنسیوں کےآپس میں کوآرڈنیشن کا مناسب انتظام موجود نہیں۔ ان کی معلومات کو ایک جگہ پر جمع نہیں کیا جاتا اورنہ ایک جگہ پر ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات یہ ایجنسیاں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں لگی رہتی ہیں اسی طرح ان ایجنسیوں کی معلومات کو کارروائی کیلئے پولیس تک پہنچانے کا بھی مناسب انتظام نہیں ۔ امریکہ نے خفیہ ایجنسیوں کی معلومات کو جمع کرنے اور ایکشن کیلئےمتعلقہ ادارے تک پہنچانے کیلئے ہوم لینڈ سیکورٹی کا ادارہ بنایا اور نائن الیون کے بعد وہاں کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ پاکستان میں اس غرض کیلئے نیکٹا بنایا گیا تھا لیکن خفیہ ایجنسیاں اس کی بالادستی ماننے کیلئے تیار نہیں ۔ اس لئے یا تو نیکٹا کو ہوم لینڈ سیکورٹی کے طرز پر طاقتور اور باوسائل بنا دینا چاہئے یا پھر خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین کوآرڈنیشن کو بہتر بنانے کیلئے کوئی متبادل انتظام کرنا چاہئے تاکہ ان ایجنسیوں کی کاوشوں کا قوم کو مناسب فائدہ بھی پہنچے۔

Back to top button