سپریم کورٹ کے ججز اورعمران خان میں مکالمہ سامنے آگیا

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینے کیخلاف کیس کی سماعت کےدوران سپریم کورٹ کے ججز اور عمران خان میں مکالمہ سامنے آگیا۔

چیف جسٹس نے ویڈیو لنک پر موجود عمران خان کو کہا کہ کیا آپ ہمیں سن سکتے ہیں،کیا آپ کیس سے متعلق کچھ ایڈ کرنا چاہتے ہیں۔

عمران خان نے جواب دیا کہ جی بلکل میں آپ کو سن رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پلیز آپ کیس سے متعلق ہی بات کیجئے گا۔ہم صرف موجودہ کیس پر ہی رہنا چاہتے ہیں،آپ جیل میں اپنے حالات سے متعلق گفتگو کرنے لگ جاتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں،کیا آپ بتا سکتے ہیں میں نے پوائنٹ سکورنگ کی۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا فیصلہ ہوچکا۔

 سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آپ کے بیان سے لگتا ہے میں غیر ذمہ دار شخص ہوں کوئی غلط بات کردوں گا،میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا،آپ صرف کیس پر رہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے،آپ صرف کیس پر رہیں،جج اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں دیا کرتے، آپ نظیر ثانی دائر کرسکتے۔

عمران خان نے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتاہوں۔

چیف جسٹس نے عمران خان کو ہدایت کی کہ آپ اپنے کیس پر رہیں۔جج اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں دیا کرتے، آپ نظیر ثانی دائر کرسکتے۔

بانی تحریک ا نصاف نے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتاہوں ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا۔مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفےکی قیمت کم لگائی۔دو کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی،میں کہتاہوں نیب کا چیرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عمران خان صاحب ان ترامیم کو کلعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی،  آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیاہے۔عمران خان آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہےگا؟

عمران خان نے کہا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ جیل میں جا کر تو مزید میچورٹی آئی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ستائیس سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا،غریب ملکوں کے سات ہزار ارب ڈالر باہر پڑے ہوئے ہیں، اس کو روکنا ہوگا،میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں۔

فاضل جج نے کہا کہ کیا نیب ایسے ہی برقرار رہے گی؟۔

بانی تحریک ا نصاف نے کہا کہ نیب کو بہتر ہونا چاہیے ، کرپشن کے خلاف ایک اسپیشل ادارے کی ضرورت ہے ۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بانی پی ٹی آئی کو چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی کا معاملہ یاد کرا دیا۔

عمران خان نے کہا کہ میں جیل میں ہی ہوں ترمیم بحال ہونے سے میری آسانی تو ہو جائے گی ملک کا دیوالیہ ہو جائے گا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے چئیرمین اور ممبران کا معاملہ ہائیکورٹ میں آیاتھا۔یہ الیکشن کمشنر آپ نے خود لگایا تھا،76سالوں میں پارلیمنٹ کو نیچا دکھایا گیا۔

عمران خان نے کہاکہ  نیب کے اختیارات کم ہوں تو میرے لئے اچھا ہوگا،لوگوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ممالک ہیں، ان کا کیا ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خان صاحب آپ جو باتیں کررہے ہیں مجھے خوفزدہ کررہی ۔حالات اتنے خطرناک ہیں تو اپنے ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں،جب آگ لگی ہوتو یہ نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک، پہلے آپ آگ کو بجھائیں،اپنے گروپ کو لیڈ کریں۔آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں،خدانخواستہ اس ملک کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں سیاستدان ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ دبئی لیکس میں بھی نام اچکے، پیسے ملک سے باہر جارہے ،بھارت میں اروند کیجریوال کو آزاد کرکے، سزا معطل کرکے انتخابات لڑنے دیاگیا، مجھے 5 دنوں میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کردیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تو سیاسی نظام کس نے بناناتھا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں، آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں۔

اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، 100 انڈیکس میں 515 پوائنٹس کا اضافہ

 

عمران خان نے کہا کہ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں،پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہواہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کچھ بھی ہوگیاتو ہمیں شکوہ آپ سے ہوگا،ہم آپ کی طرف دیکھ رہے، آپ ہماری طرف دیکھ رہے۔

بانی پی ٹی آئی نے سائفر کیس کا حوالہ دینا چاہا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روک دیا۔

عمران خان  کہا کہ سائفرکیس میں شاید اپیل ہمارے سامنے آئے۔میں زیرالتوا کیس کی بات نہیں کررہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا یہی خدشہ تھاکہ زیرالتوا کیس پر بات نہ کردیں۔

جسٹس حسن اظہر نے  عمران خان نے استفسارکیا کہ آپ نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیوں نیب بل کی مخالف نہیں کی؟

عمران خا نے کہا کہ یہی وجہ بتانا چاہتاہوں کہ حالات ایسے بن گئے تھے،شرح نمو چھ عشاریہ دو پر تھی، حکومت سازش کے تحت گرا دی گئی،پارلیمنٹ جا کر اسی سازشی حکومت کو جواب نہیں دے سکتاتھا،۔اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، باہر سے جو ترسیلات زر آتی ہیں اشرافیہ باہر بھیج دیتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دو چیزوں کو مکس کررہے ہیں۔ہم سیاسی بات نہیں کرنا چاہ رہے تھے مگر آپ کو روک نہیں رہے ۔ڈائیلاگ سے کئی چیزوں کا حل نکلتا ہے۔۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ فاروق نائک صاحب آپ کی بھی ذمہ داری ہے،ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں مگر آپ سیاستدان بھی احساس کریں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ہم نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خان صاحب آپ سارا دن بہت تحمل سے بیٹھے۔

Back to top button