ہندوتوا کا نعرہ لگانے والے مودی الیکشن جیت کر بھی ہار کیسے گئے

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ ہندوتوا کا نعرہ لگا کر مسلمان مخالف جذبات کو ہوا دینے والے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی اپنی اتحادی جماعتوں کے سر پر اکثریت حاصل کر کے وزارت عظمی تو حاصل کر لیں گے لیکن انکی یہ جیت دراصل ہار مانی جا رہی یے جبکہ راہول گاندھی کی شکست کو ان کی جیت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ سے اٹھ کر دو بار وزیر اعظم بننے والے نریندر مودی تیسری بار بھی وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں لیکن اب کی بار وہ جیت کر بھی ہارے ہیں، جبکہ اپوزیشن اتحاد جس نے اپنا نام انڈیا رکھ دیا تھا، ہار کے بھی جیت گیا ہے۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد اپوزیشن کے ہیڈ کوارٹر میں جشن کا سماں تھا اور بی جے پی کے ہیڈ کوارٹر میں جب نریندر مودی تقریر کر رہے تھے تو بظاہر تو ان پر پھول برسائے جا رہے تھے لیکن ان کی باڈی لینگویج اور تقریر کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ جیت کر بھی ہار گئے ہیں اور یہ کہ انکے سارے ارادے خاک میں مل گئے ہیں۔ اب کی بار نریندر مودی نے یہ ٹارگٹ رکھا تھا کہ وہ لوک سبھا کی چار سو سے زائد نشستیں لیں گے۔ گویا ان کو زعم تھا کہ جیتیں گے تو وہ بہ ہر صورت لیکن چار سو سے زائد سیٹیں جیتیں گے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے ریاستی مشینری اور میڈیا کو بھی خوب استعمال کیا اور بھارتی میڈیا نے ایگزٹ پول تک میں یہ تاثر دیا کہ مودی اپنا ٹارگٹ حاصل کریں گے لیکن جب نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ مودی کی بی جے پی اور انکے اتحادی مل کر بھی 400 تو کیا 300 نشستیں بھی حاصل نہیں کر پائے جبکہ ان کی مخالف کانگریس نے پچھلے الیکشن کے مقابلے میں اپنی نشستیں دگنی کر لیں۔

لاہور ہائی کورٹ کا خواتین کے شناختی کارڈ پر والد کے نام کےلیے قواعد میں ترمیم کا حکم

سلیم صافی بتاتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ تنہا بی جے پی اپنی سیٹوں کے ساتھ حکومت بنا سکتی تھی لیکن اب کی بار اسے حکومت سازی کیلئے اتحادیوں کی حمایت درکار ہے۔ مودی کو حکومت بنانے کیلئے 272 نشستوں کی ضرورت ہے جبکہ بی جے پی کی اپنی نشستیں صرف 240 ہیں۔ اگر این ڈی اے نامی الائنس کے دیگر اتحادیوں کی سیٹیں ملا لی جائیں تو یہ تعداد 292 بنتی ہے۔ اتحادی اگر مودی کے ساتھ حکومت سازی کریں گے تو اپنی شرائط بھی منوائیں گے اور پچھلی مرتبہ کی طرح مودی لہازا امیت شاہ کے پاس فری ہینڈ نہیں ہو گا۔ دوسری طرف اب کی بار انہیں ایک نیا حوصلہ پانے والی اپوزیشن کا بھی سامنا ہوگا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ حالیہ انتخابات میں عوام کے ردعمل کے نتیجے میں نریندر مودی اپنے ہندتوا کے ایجنڈے کو بھی اس شدومد کے ساتھ آگے نہ بڑھا سکیں۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ سب سے بڑا دھچکا مودی کو اتر پردیش میں ملا ہے جہاں مودی مخالف اور کانگریس کی اتحادی جماعت سماج وادی پارٹی نے 80میں سے 37 نشستیں حاصل کر کے بی جے پی کو پچھاڑ دیا۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں پر بابری مسجد کو شہید گیا گیا تھا اور مودی نے وہاں پر انتہا پسندوں کے ساتھ کیا گیا رام مندر کی تعمیر کا وعدہ پورا کیا۔ اسی طرح انہوں نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کیلئے دفعہ 370کو ہٹانے کا وعدہ بھی پورا کیا اور تین طلاق روکنے جیسے متنازع قانون کی بھی منظوری دی لیکن خود اتر پردیش میں بھی انکے مخالفین کو تاریخی ووٹ ملے۔ صافی بتاتے ہیں کہ مودی نے اب کی بار انتخابات میں 400 کے ہندسے کو پار کرنے کیلئے ایسے طریقے اپنائے کہ ہندوستان کے انتخابات پاکستان کے انتخابات لگ رہے تھے۔ انہوں نے میڈیا کو دبائو اور لالچ کے ذریعے اس قدر اپنا ہمنوا بنایا تھا کہ وہ ہندوستانی میڈیا کم اور مودی کا میڈیا زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔ گویا وہ والی کیفیت بنائی ہوئی تھی جو پاکستان میں بعض سیاستدانوں کے بارے میں بنائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے بھی ہر طرح کے حربے استعمال کئے اور عام آدمی پارٹی کے کجریوال کو جیل کی سیر بھی کرائی۔ عمعان خان کی طرح انہوں نے بھی سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد راہول گاندھی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ صرف مودی کے خلاف الیکشن نہیں لڑ رہے تھے بلکہ بیورو کریسی، الیکشن کمیشن، خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا کے خلاف بھی الیکشن لڑ رہے تھے۔ لیکن ان سب کا عوام پر کچھ اثر نہیں ہوا اور صرف مودی کے نہیں بلکہ ہندوستانی میڈیا اور دانشوروں کے سارے اندازے غلط ثابت کر دئیے۔ اگرچہ نوعیت یکسر مختلف ہے لیکن ایک حوالے سے وہاں پر بھی وہی کچھ ہوا جو پاکستان کے گزشتہ انتخابات میں ہوا۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ یہاں پر نریندر مودی کی طرح میاں نواز شریف انتخابات سے قبل یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ جیتنا تو انہیں ہی ہے لیکن دو تہائی اکثریت بھی چاہئے۔ اب جب نتائج آئے تو دو تہائی اکثریت تو کیا ملتی سادہ اکثریت بھی نہیں ملی اور انتخابی نتائج کے بعد اپنی جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے جب وہ تقریر کر رہے تھے تو ایسے لگ رہے تھے جیسے کہ اپنی جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے مودی لگ رہے تھے۔ پاکستان میں حکومت مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے بنانی تھی لیکن الیکشن کے بعد جشن پی ٹی آئی والے منا رہے تھے جبکہ ہندوستان میں حکومت مودی بنانے جا رہے ہیں لیکن جشن کانگریس کی قیادت میں انڈیا الائنس والے منارہے ہیں۔ جس طرح پاکستان میں مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کو طعنہ دے رہی تھی کہ وہ اپنی ہار کا جشن منا رہی ہے اسی طرح بی جے پی کے ترجمان کانگریس والوں کو یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنی ہار کا جشن منا رہے ہیں۔ پاکستان میں شہباز شریف کی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت کی مرہون منت ہے اور وہ ہمہ وقت پیپلز پارٹی کے ہاتھوں بلیک میل ہو تی رہے گی جبکہ ہندوستان میں مودی حکومت بنا لیں گے لیکن اب کی بار انہیں بھی شہباز شریف کی طرح علاقائی اتحادی جماعتوں کے ناراض ہونے کا خطرہ ہمہ وقت لاحق رہے گا۔ پاکستان میں اگر پیپلز پارٹی کسی وقت مسلم لیگ نون سے اتحاد توڑ کر پی ٹی آئی سے اتحاد کر لیتی ہے تو کایا پلٹ جائے گی اور وہ دونوں حکومت بنا سکتی ہیں اسی طرح اگر نریندر مودی کے اتحادی کسی وقت ناراض ہو کر کانگریس کی طرف چلے جاتے ہیں تو وہ اپنی حکومت بنا سکتے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنے الیکشن میں روایتی گھٹیا طریقے بھی استعمال کئے اور کانگریس پر الزام لگاتے رہے کہ وہ پاکستان کی حامی ہے۔ وہ انتخابی جلسوں میں کہتے رہے کہ پاکستان شہزادے راہول گاندھی کو انڈیا کا وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے حالانکہ پاکستان کا الیکشن سے کوئی واسطہ تھا اور نہ وہ کوئی کردار ادا کر سکتا تھا۔ مودی پاکستان کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہے اور یہاں تک کہتے رہے کہ ہم پاکستان کو چوڑیاں پہنا دیں گے لیکن جو نتائج سامنے آئے ہیں، اس کے بعد وہ پاکستان کو چوڑیاں کیا پہنائیں گے خود انکے اپنے پائوں میں بیڑیاں لگ گئی ہیں۔

Back to top button