یونیورسٹیوں کی کیا ضرورت ہے؟

تحریر : جاوید چوہدری ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

پورڈو (Purdue) امریکی ریاست انڈیانا کا چھوٹا سا قصبہ ہے‘ یہ علاقہ اپنی یونیورسٹی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ چاند پر قدم رکھنے والا پہلا خلانورد نیل آرم اسٹرانگ اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصل تھا‘ پورڈو یونیورسٹی لفایٹ (Lafayette) شہر کے ایک رئیس جان پورڈو نے بنائی تھی‘ اس نے 1869ء میں سائنس‘ ٹیکنالوجی اور زراعت کے جدید ترین کالجز کے لیے زمین اور رقم عطیہ کی اور یوں 1874ء میں کالج اور پھر یونیورسٹی بن گئی‘ آج اس کیمپس میں 60 ہزار طالب علم پڑھ رہے ہیں جب کہ پروفیسروں کی تعداد تین ہزار ہے‘ یونیورسٹی کے پروفائل پر 13نوبل انعام‘ 127 خلانورد‘ دو ورلڈ فوڈ پرائز‘ تین پلٹزر پرائز اور 18 اولمپک میڈلز ہیں۔

میرے ایک دوست کو چند برس قبل پورڈو میں جانے کا اتفاق ہوا‘ یونیورسٹی کے دائیں بائیں قصبے میں لکڑی کے گھر بنے تھے‘ آپ کو یقینا معلوم ہو گا امریکا‘ یورپ اور آسٹریلیا سمیت پوری فرسٹ ورلڈ میں گھروں کا اسٹرکچر لکڑی سے بنایا جاتا ہے‘ کنکریٹ اور اینٹ بہت کم استعمال کی جاتی ہے‘ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں‘لکڑی کے اسٹرکچر کے باعث گھر جلدی مکمل ہو جاتے ہیں۔

اور دوسرا زلزلہ یادوسری قدرتی آفات کے دوران گھر کے مکین محفوظ رہتے ہیں‘ پورڈو کی وادی میں بھی گھروں کے فریم لکڑی سے بنائے جاتے ہیں‘ میرے دوست نے چند دن ایک مقامی گھر میں گزارے‘ گھر کا مالک صحن کی دوسری سائیڈ پر دو نئے کمرے بنوا رہا تھا‘ ان کا اسٹرکچر بھی لکڑی سے تیار ہورہا تھا‘ میرے دوست نے باتوں ہی باتوں میں بوڑھے امریکی سے پوچھا ’’کیا یہاں لکڑی کو دیمک نہیں کھاتی؟‘‘ بوڑھے نے پوچھا ’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘ میرے دوست نے حیرت سے پوچھا ’’کیا آپ دیمک سے واقف نہیں ہیں؟‘‘ بوڑھے نے کندھے اچکا کر جواب دیا ’’ہرگز نہیں‘‘ دوست نے بتایا ’’یہ چھوٹا سا کیڑا ہوتا ہے جو لکڑی کو کھا کر اندر سے کھوکھولا کر دیتا ہے‘‘ بوڑھے نے بڑا سا ’’او‘‘کیا اور پھر مسکرا کر بولا ’’آج سے سو سال پہلے پورے علاقے میں بہت دیمک ہوتی تھی‘ وہ ہمارے گھروں کے اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ کھڑکیاں‘ دروازے اور کرسیاں میز بھی کھا جاتی تھی‘ جنگلوں میں کھڑے کھڑے درخت اندر سے کھوکھلے ہو جاتے تھے اور فصلیں تک دیمک کے کیڑے چاٹ جاتے تھے۔

میرے دادا بتاتے تھے اس زمانے میں لوگوں نے یہاں سے نقل مکانی شروع کر دی لیکن پھر کسی سیانے کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا‘ اس نے لوگوں کو جمع کیا اور یہ سب پورڈو یونیورسٹی چلے گئے‘ ریکٹر سے ملے اور اسے اپنی مشکل بتائی‘ اس نے فوری طور پر ایگری کلچر کالج کے پروفیسرز کو اکٹھا کیا اور انھیں علاقے کے لوگوں کی مشکل بتائی‘ پروفیسروں نے شہریوں سے تھوڑی سی مہلت مانگ لی‘ لوگوں نے چند دن بعد دیکھا یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طالب علم شہر اور کھیتوں میں کام کررہے ہیں‘ یہ لوگ پورا سال علاقے کے مختلف حصوں میں کام کرتے رہے اور پھر ایک دن یونیورسٹی کے ریکٹر نے علاقے کے زمین داروں‘ کسانوں اور کونسلروں کو جمع کیا اور انھیں خوش خبری سنائی آپ کو آیندہ دیمک کبھی تنگ نہیں کرے گی‘ریکٹر کا دعویٰ سچ نکلا‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے پورے علاقے سے دیمک ختم ہو گئی یہاں تک کہ ہم آج اس کا نام تک بھول گئے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’پروفیسرز نے کیا کیا تھا؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’ہم نہیں جانتے‘ہمیں بس اتنا پتا ہے یہ لوگ سال بھر شہر اور دیہات کے مختلف حصوں میں تھوڑی تھوڑی کھدائی کرتے رہے اور اس کے بعد یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا‘‘۔

پنجاب کے ٹیکس فری بجٹ میں  کیا مہنگا ہو ا اور کیا سستا ؟

 

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے‘ امریکا کے ایک چھوٹے سے شہر سے یونیورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ نے دیمک جیسا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا‘ ہم اگر گہرائی میں جا کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا دنیا بھر کے زیادہ تر مسئلوں کا حل یونیورسٹیوں سے ہی نکلتا ہے‘ آپ ادویات کو لے لیں‘ گاڑیوں کی انڈسٹری‘ کپڑوں اور جوتوں کی مارکیٹ‘ نئی بیماریوں کی تشخیص‘ خوراک کی نئی قسمیں‘ تعمیرات کا مٹیریل‘ کمیونی کیشن حتیٰ کہ نئے سیاسی نظام تک یونیورسٹیوں میں ایجاد اور ٹرائل ہوئے اور اس کے بعد معاشروں تک پہنچے‘ آج ’’وائی فائی‘‘ ہر شخص کی ضرورت ہے لیکن اس کا استعمال بھی سب سے پہلے کینبرا یونیورسٹی کے طالب علموں نے کیا تھا‘ آپ دنیا کی کوئی بھی ماڈرن ایجاد دیکھ لیں آپ کو وہ کسی نہ کسی تعلیمی ادارے میں جنم لیتی دکھائی دے گی۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہمارے ملک میں بھی سیکڑوں یونیورسٹیاں اور ہزاروں کالجز ہیں مگر ہم اس کے باوجود مسائل کے سمندر میں غوطے کیوں کھا رہے ہیں؟ میں 1992ء میں اسلام آباد آیا تھا‘ میں نے اسی سال مارگلہ کی پہاڑیوں میں آگ لگنے کی خبر پہلی مرتبہ پڑھی تھی اور اس کے بعدکوئی ایسا سال نہیں گزرا جس میں یہ خبر نہ آئی ہو ‘ 32 سال گزر گئے‘میں نے ان 32 برسوں میں ہر سال مارگلہ کے جنگلوں میں آگ لگتی اور ہزاروں لاکھوں درخت اور پودے جل کر راکھ ہوتے دیکھے‘ ہماری کوئی حکومت 32 برسوں میں یہ مسئلہ حل نہیں کر سکی‘ سی ڈی اے وزارت داخلہ کا ماتحت ادارہ ہے اور محسن نقوی وزیر داخلہ ہیں‘ یہ پڑھے لکھے اور متحرک انسان ہیں لہٰذا یہ قائداعظم یونیورسٹی اور بارانی یونیورسٹی کے پروفیسروں اور طالب علموں سے مدد کیوں نہیں لیتے؟ یہ ان کے ساتھ میٹنگ کریں‘ انھیں مسئلہ بتائیں اور یونیورسٹی اس کا کوئی حتمی حل نکالے‘ وزارت داخلہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے سفارت خانوں کو بھی ای میل کر سکتی ہے‘ ہمارے سفیر مقامی نظام دیکھیں اور سی ڈی اے کو بریفنگ دیں‘آخر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے لے کر امریکا تک دنیا کے مختلف ملک اپنے جنگلوں کو آگ سے کیسے بچاتے ہیںیا پھر لگی ہوئی آگ کیسے بجھاتے ہیں؟

ہم اسی طرح خوراک کے بحران میں بھی مبتلا ہیں‘ ہم اپنی ضرورت کی 70 فیصد دالیں درآمد کرتے ہیں‘ کھانے کے تیل کا 90 فیصد خام مال باہر سے آتا ہے اور اس پر ہر سال اربوں ڈالر ضایع ہوتے ہیں‘ ملک میں ہر سال خوراک کی کسی نہ کسی جنس کا بحران بھی ضرور پیدا ہوتا ہے‘ کبھی گندم زیادہ ہو جاتی ہے اور کبھی کم‘ کبھی چینی غائب ہو جاتی ہے اور کبھی زیادہ‘ ہم دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہیں لیکن صدر اور وزیراعظم کو بھی خالص دودھ نصیب نہیں ہوتا اور پوری دنیا میں خوراک دیہات میں پیدا ہوتی ہے لیکن ہمارے کسان بھی کھانے پینے کا سامان شہر سے لاتے ہیں‘ کیوں؟ کیا ہم ملک بھر کی زرعی یونیورسٹیوں کے ماہرین کو اکٹھا کر کے یہ مسئلہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم نہیں کرسکتے‘ ہم مطلوبہ خوراک کا ڈیٹا بنائیں۔

ملک کو آب و ہوا اور پیداوار کے حساب سے مختلف یونٹوں میں تقسیم کریں اورہر یونٹ کوکسی ایک جنس کے لیے وقف کر دیں‘ اس سے ہم خوراک کے بحران سے بھی نکل جائیں گے اور کسان بھی خوش حال ہو جائیں گے‘ ہم ایک ہی بار کوکنگ آئل کا خام مال بھی پاکستان میں پیدا کیوں نہیں کرتے؟ ہم ہر سال سویا بین آئل کیوں امپورٹ کرتے ہیں؟ باکل اسی طرح پاکستان کی زمین میں ہماری ضرورت سے زائد تیل اور گیس موجود ہیں‘ ہم یونیورسٹیوں کو فعال کر کے لوکل ٹیکنالوجی کیوں نہیں بناتے اور اپنی ضرورت کی گیس اور تیل کیوں نہیں نکال لیتے‘ پاکستان شوگر‘ بلڈ پریشر اور دل‘ جگر‘ معدہ اور گردوں کی بیماریوں میں پہلے پانچ نمبروں میں آتا ہے‘ ہر گھر کا بجٹ خوراک سے زیادہ ادویات پر خرچ ہوتا ہے چناں چہ آج لوگوں کو خوراک کے لیے کم اور اہل خانہ کی ادویات کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے‘حکومت میڈیکل یونیورسٹیوں اور زرعی کالجوں کو اکٹھا بٹھا کر ان بیماریوں کا مستقل حل تلاش کیوں نہیں کرتی؟ ہم خوراک کا پیٹرن تبدیل کریں‘ قوم کالائف اسٹائل بدلیں‘ پورے ملک کو ان بیماریوں سے بچنے کا طریقہ بتائیں اور ’’بیمار قوم کے ٹائٹل‘‘ سے باہر آ جائیں۔

پاکستان کا پانی‘ زمین اور ہوا تینوں گندے ہو چکے ہیں‘ ہم یونیورسٹیوں کی مدد سے ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ حل کیوں نہیں کرتے؟ یونیورسٹیاں ہمیں پینے کے صاف پانی کا بندوبست کر کے کیوں نہیں دیتیں؟ یہ صاف ہوا اور پاک زمین کا تصور کیوں نہیں دیتیں‘ ملک میں درجنوں آرکی ٹیکچر کالج ہیں لیکن اس کے باوجود پورے ملک میں بے ہنگم کنسٹرکشن ہو رہی ہے‘ آرکی ٹیکچر اسکول آسان‘ اچھے اور سستے گھروں کے نقشے بنا کر پورے ملک کو کیوں نہیں دیتے؟ اس سے بچت بھی ہو گی اور شہر بھی ایک جیسے اور خوب صورت ہو جائیں گے۔

ملک میں بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے‘ یونیورسٹیاں عوام کو چھوٹے بزنس کے پلان اور بزنس ٹریننگ کیوں نہیں دیتیں؟اس سے ملک میں روزگار بڑھے گا‘ لوگ خوش حال ہوں گے‘ ملک میں ٹریفک کا کوئی سسٹم موجود نہیں‘ پولیس گردی عام ہے جب کہ گھروں کے اندر لڑائیاں چل رہی ہیں‘ یونیورسٹیاں ان کا حل کیوں نہیں نکالتیں اور حکومت ان سماجی معاملوں میں پروفیسروں اور ریسرچر کی مدد کیوں نہیں لیتیں؟ اور آخری سوال اگر ہماری یونیورسٹیوں‘ پروفیسرز اور ریسرچرز نے یہ کام نہیں کرنے تو پھر ان کی ضرورت کیا ہے؟ ہم ہر سال ان اداروں پر کھربوں روپے کیوں ضایع کرتے ہیں؟ ہم انھیں بند کر دیں تاکہ کم از کم یہ خرچ تو بچے‘ ملک میں یونیورسٹیاں اور کالج بھی چل رہے ہیں اور ملک مسائلستان بھی بنا ہوا ہے آخر پھر ان یونیورسٹیوں کا کیا فائدہ؟ ہمیں ان کی کیا ضرورت ہے؟۔

Back to top button