کیا حکومت آئی ایم ایف کو مہنگائی بم نہ گرانے پرآمادہ کر پائے گی؟

سنگین معاشی بحران کی شکار شہباز حکومت کی جانب سے بُدھ کے روز دو ہزار چوبیس اور پچیس کے لیے ایک ایسا بجٹ پیش کرنےکی اُمید کی جا رہی ہے، جس کی بدولت آئی ایم ایم کو بیل آؤٹ ڈیل کے لیے قائل کرنے میں بھی مدد مل سکے گی۔حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کی ممکنہ کوششیں کر رہی ہے۔ ملکی مالیاتی بجٹ پیش کر کےحکومت کوشش کرے گی کہ کسی طرح آئی ایم ایف کو بیل آؤٹ ڈیل پر رضامند کر لیا جائے۔

خیال رہے کہ جنوبی ایشیائی خطے میں دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی معیشت سب سے سست رفتاری کا شکار ہے۔ اس ملک کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے 6 تا 8 بلین ڈالر کے درمیان قرض کی مدد درکار ہے۔اقتصادی ماہرین کے مطابق یہ بجٹ پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ اس وقت پاکستان کے لیے کل اخراجات اور ریونیو اکٹھا کرنے کے درمیان فرق کو ختم کرنا ضروری ہے۔‘‘

پنجاب کے ٹیکس فری بجٹ میں  کیا مہنگا ہو ا اور کیا سستا ؟

 

یاد رہے کہ پاکستان حال ہی میں آئی ایم ایف کے ایک قلیل مدتی تین بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کے سبب ڈیفالٹ سے بال بال بچا تھا۔ تاہم حکومت کو مالیاتی اور بیرونی خسارے پر قابو پانے کی قیمت یہ ادا کرنا پڑی کہ اس کی صنعتی سرگرمیوں میں واضح کمی لانا پڑی جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی شرح انتہائی بلند سطح پر پہنچ گئی تھی۔ پاکستان میں گزشتہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح 30 فیصد تھی جو کہ گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران 24.52 فیصد تک پہنچ چُکی ہے۔

آئندہ سال کے لیے ملک کی پیداواری ترقی کے گزشتہ سال کے 2 فیصد اور اقتصادی سکڑاؤ سے بڑھ کر3.6 فیصد ہونے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔فروری میں منتخب ہونے کے بعد سےوزیر اعظم شہباز شریف نے سخت اصلاحات کے عزم کا اعلان کیاتھا۔ تاہم عام ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، بے روزگاری اور نئی ملازمت کے مواقع کی کمی ان کے حکومتی اتحاد پر سخت سیاسی دباؤ کا سبب بنی ہوئی ہے۔ماہرین کے مطابق شہباز حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی ممکنہ تمام شرائط اور اقدامات کو مکمل طور پر نافذ کرنا بہت کٹھن ہوگا۔ آئی ایم ایف کے مطالبات میں ٹیکس میں وسعت کے ذریعے آمدنی میں اضافہ اور بجلی کے نرخوں میں اضافے جیسے مشکل فیصلے حکومت کے لیے مشکل ہوں گے۔’ایک کمزور مخلوط حکومت، ایک مضبوط اور مقبول اپوزیشن اور گہری جڑوں والی اسٹریکچرل اصلاحات کو احتیاطی تدابیر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔‘‘ دوسری جانب ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے دوران 316 ارب، چاروں صوبے 616 ارب روپے بیرونی قرضہ لیں گے۔ سندھ حکومت سب سے زیادہ 334 ارب روپے کا قرضہ لے گی۔ خیبرپختوانخوا حکومت 131 ارب روپے کے بیرونی قرضے پر انحصار کرے گی۔ پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 123 ارب روپے کا بیرونی قرضہ لیا جائے گی جبکہ بلوچستان حکومت 29 ارب کے قرضے لے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر مقامی وسائل سے سرمایہ کاری کی تفصیلات بھی شیئر کر دی گئی ہیں، جس کے مطابق مختلف محکمے ترقیاتی منصوبوں پر اپنے وسائل سے 196 ارب 89 کروڑ خرچ کریں گے۔

Back to top button