بجٹ کے بعد پیپلز پارٹی کا شہباز کابینہ میں واپسی کا امکان

وزیراعظم شہباز شریف اور نون لیگ کے کئی سینیئر رہنما پیپلز پارٹی کو وفاقی کابینہ کا حصہ بننے کی دعوت دے چکے ہیں، تاہم پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔وفاقی بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر حکومتی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بجٹ پر تنقید کی گئی تھی لیکن اب بجٹ کے بعد پیپلز پارٹی کی کابینہ میں شمولیت کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے، جس کا حتمی فیصلہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ہی کرے گی۔

بجٹ پیش کیے جانے سے ایک ماہ قبل ہی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اعلیٰ سطح کے وفود کی بجٹ اور کابینہ میں شمولیت سے متعلق ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ جس میں نون لیگی قیادت کی جانب سے باقاعدہ طور پر پیپلز پارٹی کو کابینہ کا حصہ بننے کی دعوت دی گئی۔ تاہم بجٹ بارے تحفظات کے بعد دونوں جماعتوں میں اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں،تاہم وزیراعظم شہباز شریف کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ اگلے مالی سال کے بجٹ کی منظوری سے قبل ان کی جماعت اپنی اتحادی جماعت پی پی پی کو اعتماد میں لینا یقینی بنائے گی۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے بجٹ کے حوالے سے تحفظات درست ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان سے بالکل بھی مشاورت نہیں کی گئی۔ حکومت جون کے اختتام سے پہلے پیپلز پارٹی کی مکمل تسلی کے بعد بجٹ پاس کروائے گی۔‘

جاوید لطیف کا دوبارہ عام انتخابات کرانے کا مطالبہ

دوسری جانب پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما شازیہ مری بجٹ پر اپنی جماعت کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کا کابینہ میں شمولیت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کو بجٹ پر تحفظات ہیں اور مسلم لیگ ن نے حکومت بننے کے وقت مذاکرات میں جو وعدے کیے تھے وہ بھی پورے نہیں کیے۔‘ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ پیپلز پارٹی کے پاس آئینی عہدے موجود ہیں اور مسلم لیگ ن کی طرف سے وزارتوں کی پیشکش بھی ہے لیکن وفاقی کابینہ میں جانے کا پیپلز پارٹی کا تاحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

تاہم اینکر و تجزیہ کار رؤف کلاسرا سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی۔ رؤف کلاسرا کے مطابق ’میرا نہیں خیال کہ اس مہنگائی کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی ابھی کابینہ کا حصہ بنے گی کیونکہ وہ عوامی غم و غصے کا رخ اپنی طرف نہیں کرنا چاہتے۔ ابھی بجٹ پر ساری تنقید مسلم لیگ ن پر ہے، پیپلز پارٹی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی اور یہی معاملات اس وقت پارٹی کے اندر چل رہے ہیں۔‘

تاہم بعض دیگر تجزیہ کارسمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی موجودہ صورت حال میں بجٹ کے حوالے سے عوامی ردعمل سے بچنا چاہتی ہے۔اگرچہ پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔ صدر سے لے کر گورنر اور وزرا تک کی تقرری اتفاق رائے سے ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی صرف آئی ایم ایف کے بنائے ہوئے بجٹ سے دور رہنا چاہتی ہے تاکہ سارا بوجھ مسلم لیگ ن پر آئے اور عوامی ردعمل کا سامنا بھی مسلم لیگ ن کرے۔‘

کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں کوئی ناراضگی چل رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ’دونوں جماعتوں میں کوئی ناراضگی نہیں ہے، یہ سب بس عوام کو دکھانے کے لیے ہے۔ جیسے بجٹ والے دن صرف 10 منٹ کا احتجاج کیا گیا اور واپس ایوان میں آ گئے۔‘تاہم پیپلز پارٹی شہباز کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے فیصلہ عوامی ردعمل دیکھتے ہوئے کرے گی۔تجزیہ کاروں کے بقول ’بجٹ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی ناراضگی سے فنانس بل کی منظوری میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی تاہم بجٹ اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کی پالیسی شاید برقرار نہ رہ سکے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت پیپلز پارٹی میں صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر سمیت گورنرز کے آئینی عہدوں پر براجمان بھی ہے اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرتی دکھائی دیتی ہے، جو ایک اتحادی کے طور پر باقی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔ بعض مبصرین کے مطابق بلاول بھٹو زرداری حکومت میں شراکت کے مخالف تھے لیکن آصف علی زرداری نون لیگ کے ساتھ چلنا چاہتے تھے جس کے لیے آئینی عہدوں تک محدود رہنے کا راستہ اپنایا گیا لیکن بجٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے حالیہ کردار کے بعد مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی سے ازسرنو کابینہ میں شمولیت پر زور دے رہی ہے۔‘مبصرین کے مطابق’سیاسی صورت حال کی نزاکتوں کو سامنے رکھیں تو پیپلز پارٹی کو بالآخر شراکتِ اقتدار کے فارمولے میں مکمل طور پر شریک ہونا ہوگا۔‘

Back to top button