احسان فراموش افغان طالبان حکومت کی پاکستان کو کھلی دھمکیاں

آنے والے دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوثٹی ٹی پی کی پس پردہ حمایت کے بعد اب افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کو کھلی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔افغانستان کی وزارت دفاع نے وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف سرحد پار کارروائی سے متعلق دئیے گئے حالیہ بیان پر ردعمل دیتے ہوئے اسلام آباد کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کی گئی تو’نتائج‘ کا ذمہ دار پاکستان خود ہوگا۔

خیال رہے کہ جمعرات کو ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دئیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف سے جب پوچھا گیا کہ کیا پاکستان عسکریت پسندوں کو روکنے کے لیے افغانستان میں سرحد پار حملوں پر غور کرے گا تو انہوں نے کہا تھا کہ آپریشن، ”عزمِ استحکام کے تحت اگر ضرورت محسوس ہوئی تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی پناہ گاہوں کو سرحد پار بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری سے بڑھ کر کئی چیز اہم نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرحد پر ٹھکانوں کو نشانہ بنانا ”بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہو گی، کیونکہ کابل پاکستان کو دہشت گردی ”برآمد” کر رہا ہے اور وہیں پر ”برآمد کنندگان” کو پناہ بھی دی جا رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا تھاکہ اگرچہ ٹی ٹی پی پڑوسی ملک سے کام کر رہی ہے، لیکن اس کا چند ہزار افراد پر مشتمل کیڈرملک کے اندر سے کام کر رہا ہے۔” انہوں نے عمران خان کی حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ ان عسکریت پسندوں کو عمران خان کے دور میں ہی ملک کے اندر واپس لایا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے دوبارہ پاکستان میں دہشتگردی پھیلی ہے۔

خواجہ آصف کے حالیہ بیان کے بعد افغانستان کی وزارت دفاع نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے کہ ’پاکستان کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی کو بھی حساس معاملات پر اس طرح کا حساس بیان دینے کی اجازت نہ دے۔‘بیان میں مزید کہا گیا کہ ’جو کوئی بھی کسی بھی بہانے سے ہماری سرحد کی خلاف ورزی کرے گا، وہ نتائج کا ذمہ دار خود ہوگا۔‘وزارت خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ افغانستان کا اصولی موقف ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

واضح رہے کہ پاکستان طالبان کی زیر قیادت حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ اس نے افغان سرزمین پر عسکریت پسندوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ اسلام آباد کا الزام ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی نے افغانستان کی پناہ گاہوں سے پاکستان میں حملے کیے، تاہم کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی میں کوتاہیاں اس کی داخلی ذمہ داری ہے۔

یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی رواں برس مارچ میں اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی جب صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے حملوں میں سات پاکستانی فوجیوں کی موت کے دو دن بعد پاکستان نے فضائی حملوں کے ذریعے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے متعدد مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔ مبصرین کے مطابق اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی کو حوصلہ ملا، جس کے سرکردہ رہنما اور عسکریت پسند افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔اگرچہ افغانستان میں طالبان حکومت اکثر کہتی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی یا کسی دوسرے عسکریت پسند گروپ کو اپنی سرزمین سے پاکستان یا کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی، لیکن حالیہ برسوں میں ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر متعدد حملے کیے ہیں، جس سے افغان طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔

Back to top button