شہباز حکومت کی اتحادی MQM اور PPP آمنے سامنے کیوں آ گئیں؟

وفاقی حکومت کی اتحادی اور سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔

سندھ میں اعلٰی عدلیہ کی جانب سے پیپلز پارٹی دور میں کی گئی 1 سے 15 گریڈ کی بھرتیوں کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ کی حکمراں جماعت کے خلاف محاذ گرم کر دیا ہے۔ متحدہ کے اٹھائے گئے سوالوں پر پی پی پی رہنما بھی جوابی حملے کر رہے ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی نورا کشتی چلتی رہتی ہے، دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی ہیں اور پھر کچھ وقت کے بعد خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ سلسلہ گذشتہ 20 سال سے جاری ہے۔

خیال رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے پیر کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا۔انہوں نے کہا کہ ’50 ہزار سے زائد نوکریاں شہری سندھ کے نوجوانوں کے حقوق سلب کر کے جس طرح پیپلز پارٹی اپنے جیالوں میں تقسیم کر رہی تھی اس پر عدالتی فیصلے نے ذرا ٹھہرو کی مہر ثبت کر دی ہے۔‘ ایم کیو ایم پاکستان یہ مطالبہ کرتی ہے کہ جنوبی پنجاب اور جنوبی خیبر پختونخوا سیکریٹریٹ کی طرح سندھ کے شہری علاقوں کا بھی سیکرٹریٹ قائم کیا جائے، کوٹہ سسٹم نے سندھ کی دو بڑی اکائیوں کے درمیان خلیج پیدا کی جس کا فائدہ غریب اور مظلوم سندھیوں کو بھی نہیں ہو سکا۔‘خالد مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا پنجاب میں واضح اکثریت ہونے کے باوجود صرف سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرنا نسل پرستانہ سوچ کی عکاسی تھا۔‘

متحدہ قومی موومنٹ کی پریس کانفرنس کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ دنیا کے عظیم لیڈر کے خلاف اس طرح کی بات ناقابل قبول ہے، پاکستان کی 75 سالہ تاریخ سے اگر بھٹو کو نکال دیا جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا۔شرجیل انعام میمن نے ایم کیو ایم سے مطالبہ کیا کہ انہوں نے شہید بھٹو کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے اس پر معافی مانگے۔انہوں نے گورنر سندھ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سندھ میں نفرت اور جھوٹ کی سیاست کی کوئی جگہ نہیں، گورنر سندھ مستعفی ہوں، یہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں کہ شہید قائدین کے خلاف باتیں کی جائیں۔ ملک کو تقسیم کرنے اور توڑنے کی کوشش متحدہ قومی موومنٹ کرتی رہی، انہوں نے نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہتھیار دیے، ایک دن میں 100 100 لوگ بھی قتل کیے گئے، آج بھی متحدہ والے الطاف حسین کے کہنے پر چل رہے ہیں۔‘

دونوں سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں سے سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دو ہی بڑی سیاسی جماعتیں حکومت کر رہی ہیں۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو تواتر سے مرکز میں متحدہ موجود ہے۔ دونوں کی سیاست ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے چلتی ہے۔ ایک جماعت شہری سندھ میں اکثریت کی دعویدار ہے تو دوسری دیہی علاقوں میں اپنا زور دکھاتی نظر آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’دونوں جماعتوں کو چاہیے کہ صوبے میں عوام کی بہتری کے لیے اقدامات کریں نا کہ پرانے گڑے مردے اکھاڑ کر ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں۔ ملک اور خاص کر صوبہ سندھ میں صورتحال بہت خراب ہے۔ عوام دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے مشکل وقت گزار رہے ہیں۔ ایسے میں عوامی مسائل کے حل کے بجائے اگر ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو گی تو مسائل کون حل کرے گا؟‘

سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سرد جملوں کا تبادلہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ دونوں جماعتیں ناصرف ایک دوسرے پر سنگین الزام عائد کرتی رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف سڑکوں پر بھی نظر آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب کی بار عدالت سے ایک فیصلہ آیا ہے۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم ایک حقیقت ہے۔ ایم کیو ایم کئی دہائیوں سے اس کے خلاف بات بھی کرتی آئی ہے لیکن اب یہ سسٹم رائج ہے۔

Back to top button