پی ٹی آئی جسٹس عالیہ نیلم کی بطور چیف جسٹس نامزدگی پر برہم کیوں؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جسٹس عالیہ نیلم کی پنجاب کی سب سے بڑی عدالت لاہور ہائی کورٹ کی بطور پہلی خاتون چیف جسٹس نامزدگی تنقید کی زد میں ہے جہاں ایک طرف تحریک انصاف نے کھل کر نامزد چیف جسٹس عالیہ کی نامزدگی روکنے کا اعلان کر دیا ہے وہیں دوسری جانب جسٹس عالیہ نیلم کے سینیارٹی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پرہونے کی وجہ سے قانونی حلقوں میں اس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارت میں ہونے والے سپریم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے کے لیے تین سب سے سینیئر ججز جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس عالیہ نیلم کے ناموں پر غور کیا گیا تاہم اجلاس میں جسٹس عالیہ نیلم کے نام کی متفقہ طور پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے لیے منظوری دی گئی۔پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس بن جائیں گی۔

پنجاب کے وکلا جسٹس عالیہ نیلم کی بحیثیت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعیناتی پر تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔

جسٹس عالیہ نیلم کی بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نامزدگی بارے پی ٹی آئی رہنما اور سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان کا کہنا ہے کہ سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعینات ہونا چاہیے۔’ججز سینیارٹی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا الجہاد ٹرسٹ کیس کا فیصلہ بڑا واضح ہے۔ سپریم کورٹ سینیارٹی کے اصول کے حوالے سے گائیڈ لائن فراہم کر چکی ہے۔‘جوڈیشل کمیشن کی کارروائی چیلنج کی جائے گی۔ وکلا سینیارٹی کا اصول بحال کرانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔‘ حامد خان کا مزید کہنا ہے کہ ’سپریم جوڈیشل کمیشن نے پسند نہ پسند کی بنیاد پر دو سینیئر ججز کو سپرسیڈ کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی نامزدگی کی ہے۔ جس کی واحد وجہ میرٹ کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی سے تعیناتی کی کوشش ہے۔‘انہوں نے مزید کہا: ’سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سپریم کورٹ آنے کے بعد وہاں میرٹ پر سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس نامزد کیا لیکن پنجاب میں نہ صرف میرٹ کو نظرانداز کیا بلکہ 22 سال بعد ایسی روایت ڈالی کہ آئندہ بھی اس طرح کی تعیناتیوں کا راستہ کھل جائے۔‘حامد خان نے بتایا کہ ’جوڈیشل کمیشن نے نامزدگی تو کر دی اب پارلیمانی کمیٹی کی منظوری سے تقرری ہونا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی میں کل آٹھ اراکین ہیں، جن میں میرے علاوہ لطیف کھوسہ اور علی محمد سمیت چار اراکین پی ٹی آئی کے ہیں اور فاروق ایچ نائک بھی ممبر ہیں۔’ہمیں امید ہے وہ بھی ہمارا ساتھ دیں گے۔ کمیٹی میں اکثریتی رائے کی بنیاد پر تقرری کی منظوری ہونا ہے۔ لہٰذا ہم منظوری روکنے کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے چار چار ارکان ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہم اس غیر قانونی اور میرٹ کے خلاف تقرری کو روکنے کی پوری کو شش کریں گے۔‘

دوسری جانب سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار مقصود بٹرکا کہنا ہے کہ ’جو وکلا رہنما جسٹس عالیہ نیلم کی بطور چیف جسٹس نامزدگی پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ان سے دریافت کیا جائے کہ جب جسٹس شاہد بلال کو چوتھے نمبر سے اٹھا کر سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا گیا اس وقت آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی۔’جب ایک بار سینیارٹی کا خیال نہیں رکھا گیا تو دوسری بار اس معاملہ کو کیوں اچھالا جارہا ہے؟‘انہوں نے کہا کہ جسٹس عالیہ نیلم ایک سنجیدہ اور بااصول جج ہیں اور وکلا انہیں گذشتہ 10 برس سے دیکھ رہے ہیں۔وہ بہت سے ججز سے بہترہیں۔ فیصلہ کرتے وقت بھی انہیں کبھی کسی دباؤ میں آتے نہیں دیکھا بلکہ انھوں نے ہمیشہ بہادری سے فیصلے دیے۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف کسی قسم کی مالی بدعنوانی کی بھی کوئی شکایت نہیں سنی۔ حتی کہ کبھی عورت یا مرد سائل میں بھی خاتون ہونے کے ناطے فرق کرتے نہیں دیکھا۔‘

مقصود بٹر کا کہنا تھا کہ’ہم سمجھتے ہیں جسٹس عالیہ نیلم کی لاہور ہائی کورٹ میں بطور چیف جسٹس تقرری سے بہتری ضرور آئے گی۔’لیکن زیر التوا کیسوں میں کمی کی امید نہیں۔ کیونکہ لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی 60 سیٹیں ہیں لیکن جج صرف 38 فرائض انجام دے رہے ہیں۔’ہم جوڈیشل کونسل سے اپیل کرتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججز کی تعداد پوری کی جائے تاکہ کیسوں کا التوا ختم ہو اور انصاف میں تاخیر نہ ہو۔‘

خیال رہے کہ فوجداری قانون میں مہارت رکھنے والی جسٹس عالیہ نیلم 12 نومبر 1966 کو پیدا ہوئیں۔ وہ 1995 میں وکالت کی ڈگری لینے کے بعد یکم فروری 1996 کو لاہور بار ایسوسی ایشن کی ممبر بنیں اور وکالت کا لائسنس حاصل کیا۔انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ہی ایم اے سیاسیات اور بی ایڈ کی ڈگریاں بھی حاصل کر رکھی ہیں، جبکہ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے قانون کے ڈپلومے بھی مکمل کر چکی ہیں۔۔فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے مطابق انھوں نے آئینی معاملات، وائٹ کالر کرائم، دیوانی، فوجداری، انسداد دہشت گردی کے قوانین، نیب، بینکنگ جرائم، خصوصی مرکزی عدالتوں کے قانون اور بینکنگ قوانین سے متعلق پریکٹس کر رکھی ہے۔ ’بار میں پریکٹس کرتے ہوئے انھوں نے کامیابی کے ساتھ متعدد مقدمات لڑے جن میں دیوانی قانون، فوجداری قانون، بینکنگ قانون اور انسداد دہشت گردی کے قوانین شامل ہیں۔‘

فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے مطابق انھوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں 2009 سے فروری 2013 تک تقریباً 91 مقدمات، لاہور ہائی کورٹ میں تقریباً 850 مقدمات اور ٹرائل کورٹس میں تقریباً 1473 مقدمات لڑے۔وہ 2013 میں لاہور ہائی کورٹ کی ایڈجسٹ جج مقرر ہوئیں اور انھیں 2015 میں مستقل جج تعینات کیا گیا۔بطور جج لاہور ہائی کورٹ انہوں نے مختلف کیسوں میں 11 سالہ سروس میں 203 فیصلے دیے۔انہوں نے امریکہ اور نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک میں عالمی سطح پر ہونے والی قانون و انصاف سے متعلق کانفرسز میں بھی پاکستانی عدلیہ کی نمائندگی کی۔

جسٹس عالیہ نیلم نے کئی اہم مقدمات پر فیصلے کیے۔ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کے الزام میں ضمانت منظور کرنے والے تین رکنی بنچ کی رکن تھیں۔جسٹس عالیہ نیلم نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی نو مئی کے واقعات پر درج مقدمات کی انسداد دہشت گردی عدالت کے ضمانت مسترد کرنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ دیا اور ضمانت کی درخواستوں کو بحال کیا۔جسٹس عالیہ نیلم نے نو مئی کے مقدمات میں گرفتار خواتین خدیجہ شاہ اور عالیہ حمزہ سمیت دیگر ملزمان کی ضمانتیں منظور کیں۔

واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کمیشن کی منظوری کے بعد پارلیمانی کمیٹی ان کی تعیناتی کی رسمی منظوری دے گی اور اس کے بعد صدر مملکت ان کی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے پر تقرر کا نوٹیفیکیشن جاری کریں گے۔ پھر گورنر پنجاب ان سے اس عہدے کا حلف لیں گے۔سپریم کورٹ کی جج مقرر نہ ہونے کی صورت میں وہ 11 نومبر 2028 کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گی۔

Back to top button