عمران کے سحر میں مبتلا ججز فوج کو کیسے چیلنج کر رہے ہیں؟

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ تقسیم اختیارات کے اُس آئینی ڈھانچہ کے لئے دھچکا ثابت ہوا، جس پہ وفاقی نظام کا نازک توازن قائم تھا،اس فیصلہ کے بعد الیکشن کمشن جیسے آئینی ادارے کا دائرہ اختیار ،وفاقی حکومت کی اتھارٹی اور پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار درہم برہم ہونے سمیت خود نظام عدل اپنی ساکھ کو متنازعہ بنا بیٹھا ۔

کیا پاکستان میں ایمرجنسی لگائے جانے کا کوئی امکان موجود ہے؟

 قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ آرٹیکل 51 کی شق ڈی کے تحت مخصوص نشستیں صرف اُن جماعتوں کو مل سکتی ہیں،جو الیکشن کمیشن میں ترجیحی فہرست جمع کرا چکی ہوں۔ پی ٹی آئی زیر سماعت مقدمہ میں فریق تھی نہ مخصوص نشستوں بارے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کر رہی تھی ، پی ٹی آئی کا بنیادی دعویٰ یہ تھا کہ اس کے حمایت یافتہ آزاد اراکین چونکہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں لہذا مخصوص نشستوں کے کوٹہ میں سے اسے بھی حق ملنا چاہئے۔ تاہم سپریم کورٹ کے عمراندار ججز  نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا حکم دے کر انصاف کے نئے پیمانے قائم کر دئیے ہیں

چینل 24 کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمشن کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین کے متعلقہ آرٹیکلز کی تشریح کی بجائے آئین کو دوبارہ لکھا دیا ۔اب مسلہ یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے ممبران پارٹی میں واپس آتے ہیں تو پارلیمنٹ کے اندر کئی قانونی پیچیدگیاں سر اٹھا لیں گی۔ پی ٹی آئی کو ایسے لاوارث ریلیف سے نوازا گیا جس کی جوڈیشل تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ عام طور پہ سپریم کورٹ ماتحت عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کا جائزہ لیتے وقت آرٹیکل 185 پر انحصار کرتی ہے لیکن اس مخصوص کیس میں سپریم کورٹ نے دیگر فریقین کو سنے بغیر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا بلکہ اس مقدمہ میں زیر بحث 80 ارکان کو حق دفاع دیا نہ متذکرہ اراکین کی جانب سے پی ٹی آئی سے وابستگی کا دعویٰ طلب کیا، چنانچہ بادی النظری میں یہ متنازعہ فیصلہ آئین سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ مقدمہ بھی سنی اتحاد کونسل جیسی اُس مہمل جماعت کی جانب سے دائر کیا گیا،جس نے بحثیت پارٹی عام انتخابات میں حصہ لیا نہ الیکشن ایکٹ 2017کو عدالت میں چلینج کیا بلکہ پی ٹی آئی کی حمایت سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو کر پارلیمنٹ کے اندر ایک ڈمی جماعت کی تشکیل کے ذریعے ایسا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے جس کی قانون میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔

بدقسمتی سے پچھلے 76 سالوں میں ہماری اجتماعی دانش اس قسم کے ماورا آئین فیصلوں کو قبول کرتی رہی اس لئے سپریم کورٹ کے آٹھ ذیشان ججز نے آئین و قانون سے ماورا فیصلہ سنانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی بلکہ اس فیصلہ کا بینیفشری گروہ طلسماتی پروپیگنڈہ کی تکرار کے ذریعے ریاستی اتھارٹی کو احساس جرم، اضطراب اورشک کی تاریکیوں کی طرف دھکیل رہا ہے،اس لئے دستور کو دوبارہ لکھنے والے ججز کی خود اعتمادی متاثر نہیں ہو گی۔

مبصرین کے مطابق  بلاشبہ ریاستی مقتدرہ کے خلاف تازہ عدالتی مزاحمت بھی اُسی کایا کلپ کا شاخسانہ ہے جسے 2007کی وکلاءتحریک نے موومنٹم دیا تھا اور اسی تناظر میں اپریل 2009 میںسپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 31 جولائی2007 کی ایمرجنسی کوآئین توڑنے کا جرم قرار دیکر جنرل مشرف پہ سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کا حکم دےا ،بعدازاں سپریم کورٹ کے اسی فیصلہ کے تحت تینوں ہائی کوٹس کے چیف جسٹس پہ مشتمل آئینی ٹربیونل نے سابق صدر کو موت کی سزا سنا کر ماورائے آئین تبدیلی کی روایت کا تسلسل توڑ دیا تھا ۔ اب خطہ میں نمودارہونے والے نئی صف بندی اور عالمی سیاست کی بدلتی حرکیات نے ہماری ریاست کے اہم اداکاروں کے حسابات کو بنیادی طور پر تبدیل کر دیا، چنانچہ اب پُر اعتماد ججز اور ہماری عدالتیں اپنی مضبوط پوزیشن سے کھلے ہوئے سیاسی ماحول میں احتیاط سے نظام کی رہنمائی کر سکتی ہیں یا پھر تباہی بھی مچا سکتی ہیں ۔

Back to top button