علامہ طاہر القادری کی چند وارداتیں عطا الحق قاسمی کی زبانی
معروف لکھاری اور کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے کہا ہے کہ وہ اگر کسی کو پہنچا ہوا سچا اور مخفی ولی مانتے ہیں تو وہ علامہ طاہر القادری ہیں جنہیں میاں نواز شریف نے خود اپنے کاندھوں پر بٹھا کر غار حرا تک پہنچایا تھا۔ انکے مطابق طاہر القادری اتنے پہنچے ہوئے ولی تھے کہ اب وہ مستقل بنیادوں پر اپنے سارے مریدین پاکستان میں چھوڑ کینیڈا پہنچ چکے ہیں۔
اپنی تازہ تحریر میں عطاالحق قاسمی پاکستان عوامی تحریک کے سابق سربراہ طاہر القادری کے پہنچے ہونے کے قصے بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک ولی تو وہ ہوتے ہیں جو آپ کو اپنے اعمال سے بھی ولی دکھائی دیتے ہیں اور دوسرے ولی وہ ہوتے ہیں جو اپنے اعمال سے ولی دکھائی نہیں دیتے بلکہ بدکار ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں بہت پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، انہیں مخفی یعنی چھپے ہوئے ولی کہا جاتا ہے، یہ لوگ چھپتے اس لیے ہیں کہ کوئی ان کی عبادات میں مخل نہ ہو۔ ان کے مطابق طاہر القادری بھی ایسے ہی ایک مخفی ولی ہیں۔ عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں کہ میں نے تو زندگی میں صرف ایک مخفی ولی دیکھا ہے جن کا اسم گرامی آج کل شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ہے۔ میں ان کی ولایت کا تب سے قائل ہوں جب میاں محمد شریف مرحوم و مغفور نے انہیں اپنی اتفاق مسجد کا امام مقرر کیا ۔ظاہر ہے یہ منصب ان کے شایان شان نہیں تھا کہ امام مسجد تو ہر گلی کوچے میں پائے جاتے ہیں مگر شیخ الاسلام اس منصب جلیلہ پر ایک طویل عرصہ فائز رہے اور دلی جذبات کا اظہار نہ کیا۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب شیخ الاسلام کو میاں نواز شریف نے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر غار حرا تک پہنچایا۔حالانکہ اس مخفی ولی کو کسی کاندھے کی ضرورت نہیں تھی وہ لوگوں کی نظروں سے خود کو مخفی رکھ کر پلک جھپکنے میں غار حرا تک پہنچ سکتے تھے ۔اس کے بعد رہی سہی کسر انہوں نے عمران خان کے جلسوں میں پوری کر دی تاکہ اگر کسی کو ان کی مخفی اولیائی میں رتی بھر بھی شبہ ہے تو وہ شبہ دل سے جاتا رہا !
عطاء اللہ قاسمی کہتے ہیں برادرم سہیل وڑائچ کے مطابق قادری صاحب جب بھلے وقتوں میں ہم رپورٹرز سے ملتے تھے تو انہیں بتاتے تھے کہ ان کی ’’بھابی‘‘ چائنز کھانے بہت عمدہ بناتی ہے، پھر ایک روز موصوف انہیں اپنے گھر لے گئے اور کہا آپ کی ’’بھابی‘‘چائنز کھانے بنا رہی ہیں، ہم اس دوران گپ شپ کرتے ہیں۔ تاہم تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھا کہ ان کا ایک ملازم ایک بڑے سائز کے شاپر میں چائنز کھانے لےکر گھر میں داخل ہو رہا ہے۔ لیکن ایسے جھوٹ بولنا بھی مخفی ولی کی مجبوری ہوتی ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو پورے ملک میں ٹیلیفون سروس بند کر دی گئی۔ اس دوران ان کا ایک ’’مرید‘‘ ٹیلی فون لیکر قادری صاحب کی طرف آیا اور کہا جنرل صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔قادری اٹھ کر پرے چلے گئے اور رپورٹرز کی طرف پشت کر کے خاموشی سے کھڑے رہے۔ واپس آئے تو رپورٹرز نے پوچھا، قادری صاحب آج تو پورے ملک میں فون سروس بند ہے آپ کو فون کیسے آ گیا، موصوف قادری صاحب بولے کہ جنرل صاحب نے مجھ سے کچھ ضروری مشورہ کرنا تھا اس کے لئے انہوں نے یہ سروس بحال کرائی تھی !
بقول عطا اللہ قاسمی مخفی ولی کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ وہ خلق خدا کو خود سے دور رکھنے کے لئے بہت سی نازیبا حرکات کرتا ہے۔ عمران خان کے جلسے میں قادری صاحب ٹشو پیپر سے ناک پونچھ کر اپنے عقیدت مندوں کی طرف اچھال دیتے تھے اور وہ تبرک ساتھ لے جاتے تھے یا ممکن ہے کچھ نہ کچھ پونچھتے ہی ہوں، مگر ہمارے مخفی ولی کا یہ عمل بھی لوگوں کو اس حوالے سے متنفر کرنے کیلئے تھا کہ وہ سوچیں یہ شخص غرور نفس کا کتنا شکار ہے کہ ہم پر اپنی گندگی پھینک رہا ہے مگر سچا مرید کبھی ان گہرائیوں میں نہیں جاتا کہ اس کے مرشد نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ جنت میں لے جانا ہوتا ہے ! میں چونکہ ’’نان بلیور‘‘ Non Believer ہوں اس لئے قادری صاحب کی ایک اور ’’واردات‘‘ قلبی بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ بقول قادری صاحب’’ میں نے حضورﷺ سے درخواست کی کہ آپ پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں جس پر حضورؐ نے تین شرائط پیش کیں۔ پہلی یہ کہ میرا یہ دورہ تمہارے ادارے کے ذمے ہونا ہو گا، دوسری یہ کہ مدینے سے لاہور اور دوسرے شہروں کی پی آئی اے کی فرسٹ کلاس ریٹرن ٹکٹ تمہارے ذمے ہو گی، تیسری یہ کہ پاکستان کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام اور دوسرے اخراجات تمہارے ذمے ہوں گے‘‘۔ بقول قادری صاھب، یہ سن کر میں نے ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے کہا ’’حضورؐ میری تو اتنی استطاعت نہیں ہے مگر آپ کے حکم کی تعمیل ہو گی‘‘۔ چونکہ خفیہ ولی یہ خواب اپنے مرید، مردوں اور خواتین کے مجمع میں بیان کر رہے تھے چنانچہ آہ وبکاہ کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ مردوں نے اپنی جیبیں خالی کر دیں اور عورتوں نے اپنے زیوراتار کر ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ یہ کام صرف ایک خفیہ ولی ہی انجام دے سکتا ہے۔
عطاء الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ بھی حضرت صاحب کے بہت سے فرمودات ہیں مثلاً یہ کہ حضورؐ نے انہیں خواب میں بشارت دی کہ تمہاری عمر 62 برس ہو گی جبکہ اب وہ ستر کے ہو چکے ہیں چنانچہ لوگوں کے دلوں میں اس جھوٹ پر اس شخص کے خلاف نفرت تو پیدا ہو گی۔ ایک بار موصوف نے فرمایا کہ وہ عالم رویا میں سترہ برس تک امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد رہ چکے ہیں جس پر میں نے کالم لکھا تھا کہ انہیں یاد نہیں میں ان کا کلاس فیلو تھا اور مجھے یاد ہے تب بھی وہ بہت جھوٹ بولا کرتے تھے چنانچہ ناراض ہو کر امام ابو حنیفہؒ بہ طور سزا مولانا طاہر اشرفی کو ان کے اوپر بٹھا دیا کرتے تھے۔ مختصر یہ کہ وقت کے پلوں کے نیچے سے اب اتنا پانی بہہ چکا ہے کہ مخفی ولی اب بے نقاب ہو چکے ہیں۔