جنرل فیض کی گرفتاری اور ٹاپ سٹی سکینڈل کی خفیہ تفصیلات

پاکستان میں یوں تو ہر روز دھوکہ دہی، زمینوں پر قبضے اور جنرل فیض حمید جیسے با اثر لوگوں کے ہاتھوں عوام کے لٹنے کے سکینڈلز منظر عام پر اتے رہتے ہیں لیکن ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کی کہانی ایسے تمام سکینڈلز سے زیادہ پیچیدہ اور پراسرار ہے جس کے اصل حقائق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ  فیض حمید ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سکینڈل کی انکوائری کے نتیجے میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں۔

آج ہم اس طلسم ہوش ربا کے وہ پہلو آپ کے سامنے رکھیں گے جو ابھی تک پرسراریت کے پردوں میں لپٹے رہے ہیں۔

فیض حمید کے بعد مزید جرنیل بھی تحقیقات کی زد میں آ گئے

دراصل خود کو ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک ظاہر کرنے والے کنور معیز نے ساری زمین زاہدہ جاوید اسلم نامی ایک خاتون سے ہتھیائی تھی۔ زاہدہ کا دعوی ہے کہ کنور معیز انکا ملازم تھا جس نے سرکاری اہلکاروں سے مل کر اس کی ساری جائیداد اپنے نام کروا لی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زاہدہ جاوید اسلم بھی اس زمین کی اصل مالکن نہیں ہے۔ اس نے یہ جائیداد اپنے سگے بھائی افتخار علی وقار سے ہتھیائی تھی۔اس کہانی کا اغاز 2004 میں مشرف دور میں آنے والے پراپرٹی بوم سے ہوا۔ تب افتخار علی وقار اسلام اباد میں بطور پراپرٹی ڈیلر کام کرتا تھا۔ اس نے ٹاپ سٹی ہاوسنگ سوسائٹی پراجیکٹ بارے ذہن تب بنایا جب اس علاقے میں نہ تو اسلام آباد ایئرپورٹ بنانے کا اعلان ہوا تھا اور نہ ہی وہاں سے گزرنے والی سڑک بذریعہ کشمیر ہائی وے میٹرو بس سروس سے کنیکٹ ہوئی تھی۔

کیا فیض حمید کے بعد جنرل قمر باجوہ کی باری بھی آنے والی ہے ؟

افتخار علی وقار کا یہ پروجیکٹ 6 ہزار کنال زمین سے شروع ہوا جو بڑھ کر پہلے 9 ہزار کنال ہوئی اور پھر آخر میں 14 ہزار کنال تک پہنچ گئی۔ چونکہ اتنی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کی ڈویلپمنٹ کرنے کے لیے افتخار علی وقار کے پاس مطلوبہ وسائل میسر نہیں تھے اس لیے اس نے اپنی بیرون ملک برطانیہ میں مقیم بہن زاہدہ جاوید اسلم سے 80 لاکھ روپیہ ادھار لے لیا۔ ابھی سوسائٹی کی ڈویلپمنٹ مکمل نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی پلاٹس کی فروخت شروع ہوئی تھی کہ افتخار کی بہن زاہدہ جاوید اسلم نے قرض دیے گے 80 لاکھ روپوں کی واپسی کا تقاضہ کرنا شروع کر دیا۔ جب افتخار علی وقار اس کی رقم ادا نہ کر سکا تو زاہدہ نے پاکستان واپس پہنچ کر اپنی رقم کے عوض ٹاپ سٹی سوسائٹی کی زمین پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ اپنی سگی بہن کا یہ سلوک دیکھ کر افتخار علی وقار منشیات کا سہارا لینے لگا اور اخر کار دلبرداشتہ ہو کر اس نے خود کشی کر لی جس کی ایف ائی ار افتخار کی بیگم اور برادر نسبتی کی مدعیت میں 2008 میں تھانہ مارگلہ میں درج کروا دی گئی۔ اس ایف ائی ار میں زاہدہ پر افتخار کے قتل اور اس کی چار گاڑیوں اور جائیداد پر قبضے کا الزام لگایا گیا۔

ایف ائی ار کے اندراج کے بعد زاہدہ جاوید اسلم پاکستان چھوڑ کر واپس برطانیہ چلی گئی۔ وہاں پہنچ کر اس نے ایک ایسے شخص کی تلاش شروع کر دی جو اس کے ایما پر اس جائیداد کی دیکھ بھال اور خرید و فروخت کا کام کر سکے۔ اس کام کے لیے زاہدہ کے پیر صاحب ڈاکٹر نوشاد علی نے انہیں کنور معیز خان سے متعارف کروایا۔ زاہدہ کے بیان کے مطابق اس نے کنور معیز کو 25 ہزار ماہانہ تنخواہ پر اپنا مینیجر مقرر کیا۔ اس دوران کنور معیز خان نے ایم کیو ایم کے دو رہنماؤں کے ساتھ مل کر اور ان کا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس جگہ پر ڈیویلپمنٹ کا کام تیز کروا دیا اور جو چھوٹے موٹے قبضے ہوئے تھے وہ زمینیں بھی واگزار کرا لیں۔  نے زاہدہ جاوید اسلم کو اس دوران کنور نے زاہدہ کو ایک کروڑ روپے سے رقم بھی بھجوائی جس کے بارے میں زاہدہ کا کہنا ہے کہ یہ پلاٹس کی فروخت سے حاصل ہونے والی امدن تھی جسے بطور مالکہ وہ ان کو بھیج رہا تھا۔ دوسری جانب کنور معییز خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے زاہدہ سے جائیداد خریدی تھی اور اسکی قیمت بھی ادا کر دی تھی۔ کنور کا کہنا ہے کہ اس نے زاہدہ سے زمین کی پاور آف اٹارنی بھی حاصل کر لی تھی۔ ابھی ان دونوں فریقوں کے درمیان زمین کی ملکیت پر قانونی جنگ جاری تھی کہ مئی 2017 میں زاہدہ پاکستان واپس آ گئی اور اپنے بھائی افتخار کے خاندان کی جانب سے درج کیسز میں عبوری ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اسی دوران زاہدہ نے کنور معیز سے اپنی زمین کا قبضہ چھڑوانے کے لیے ہاتھ پیر مارنے شروع کیے تو اسکی ملاقات اس کی ملاقات لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے پٹواری بھائی سردار نجف حمید سے ہو گئی۔ یوں اس کیس میں ان دونوں بھائیوں کی اینٹری ہوئی اور ان کا دل بے ایمان ہو گیا۔ اتنی مہنگی زمیں کو ہڑپ کرنے کے لیے جنرل فیض حمید نے 12 مئی 2017 کو وفاقی وزارت داخلہ کی پیشگی اجازت اور پولیس کی معاونت کے بغیر ہی غیر قانونی طور پر آئی ایس آئی کے افسران اور رینجرز کے اہلکاروں کے ساتھ کنور معیز کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ اس چھاپے کے دوران رینجرز کے ایک کرنل نے کنور معیز کے چھوٹے سے بیٹے کی گردن پر پاؤں رکھ کر دباؤ ڈالا کہ وہ ٹاپ سٹی کی ساری زمین فیض حمید کے بھائی نجف حمید کے نام ٹرانسفر کر دے۔ چھاپے کے دوران چار کروڑ روپے سے زائد کیش اور سونا بھی زبردستی چھین لیا گیا۔ اس کے بعد کنور معیز اور اس کے سسر کو کئی ہفتوں تک لاپتا رکھا گیا اور راولپنڈی کے سی ٹی ڈی تھانے میں اسکے خلاف ایک جھوٹی ایف ائی ار درج کروا دی گئی۔ اس ایف ائی ار میں لکھا گیا کہ ایم کیو ایم لندن کے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر چھاپہ مار کر بھاری ہتھیار اور گولا بارود برامد کر لیا گیا ہے۔

جب کنور معیز کے ساتھ ہونے والی واردات کے حوالے سے باتیں باہر نکلا شروع ہوئی تو جنرل فیض حمید کے ایما پر انکے پٹواری بھائی سردار نجف حمید نے اس سے ملاقات کی اور معذرت کرتے ہوئے معاملہ مذید آگے نہ بڑھانے کا مشورہ دیا۔ نجف نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں ان کے بھائی فیض حمید پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں آنا چاہیے۔

لیکن اس کہانی میں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار بھی ایک مکروہ ترین کردار کے طور پر سامنے آئے۔ جب زاہدہ 2017 میں پاکستان آئی تو اس نے سپریم کورٹ میں کنور معیز کے خلاف ایک پٹیشن ڈالی کہ اس شخص نے اسکی جائیداد پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا ہے۔ ثاقب نثار نے ایف ائی اے کو انکوائری کا حکم دیا جس نے انکوائری رپورٹ میں لکھا کہ یوں تو مقدمے کی مدعیہ اپنے حق میں کوئی واضح دستاویزی ثبوت پیش نہیں کر سکی لیکن تمام دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد پتہ چلتا یے کہ کنور معیز نے یہ جائیداد اصل دستاویزات دکھائے بغیر فوٹو کاپیاں دکھا کر اپنے نام ٹرانسفر کروائی، اس کا مطلب یہ ہے کہ زمینوں کی اصل دستاویزات کنور معیز کے پاس بھی موجود نہیں۔ ایف ائی اے کی اس رپورٹ کے بعد کیس واضح تھا لیکن جنرل فیض حمید کے اس معاملے میں ملوث ہونے کی وجہ سے ثاقب نثار پہلے تو اس کیس کی فائل پر سانپ بن کر بیٹھے رہے اور پھر اپنی ریٹائرمنٹ والے دن خفیہ طور پر اپنے چیمبر میں اس کیس کی سماعت مقرر کر کے مدعیہ زاہدہ جاوید اسلم کی درخواست خارج کر دی۔ وجہ یہ تھی کہ اگر وہ یہ فیصلہ کر دیتے کہ یہ جائیداد زاہدہ جاوید اسلم کی ہے تو جنرل فیض حمید کی کنور معیز سے یہ جائیداد اپنے بھائی کے نام پر ٹرانسفر کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں جاتیں۔ بابا رحمتے کہلانے والے چیف جسٹس نے نہ صرف اپنی ریٹائرمنٹ والے دن اس کیس کو خفیہ سماعت کے بعد جلد بازی میں نپٹایا بلکہ اس کا ریکارڈ بھی ضائع کر دیا۔ جب انہیں یہ خبر ملی کہ اس کیس میں جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے تو ثاقب نثار ان کی گرفتاری سے صرف پانچ دن پہلے 7 اگست کو پاکستان چھوڑ کر برطانیہ فرار ہو گئے۔

Back to top button