بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے پاکستان آنے کا کتنا چانس ہے؟

بھارتی حکام کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کی شنگھائی تعاون تنظیم  کے پاکستان میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں عدم شرکت کی خبروں کی تردید کرنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم کے دورہ پاکستان کی قیاس آرائیوں میں شدت آ گئی ہے اور مبصرین یہ دعوے کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے پاکستانی دعوت نامے کے بعد نریندر مودی نے اپنے قریبی ساتھیوں سے اس حوالے سے مشاورت شروع کر دی ہے اور بھارتی وزیر اعظم کی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت متوقع ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کے پیش نظر ایس سی او اجلاس اہم ہے۔

پاکستان میں سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو باضابطہ دعوت نامہ بھیجا گیا ہے۔ یہ سمٹ اکتوبر کے وسط میں اسلام آباد میں ہونے والی ہے۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اور شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر رہنماؤں کو 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والے ایس سی او سربراہی اجلاس میں مدعو کیا ہے۔آٹھ سالوں میں یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان نے بھارتی رہنما کو مدعو کیا ہو۔آخری بار مودی کو سن 2016 میں ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (سارک) کے سربراہی اجلاس کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن بھارت کے بائیکاٹ کے بعد یہ سربراہی اجلاس کبھی نہیں ہوا اور اس کے بعد سے یہ علاقائی تنظیم بالکل غیر فعال ہے۔

مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے مدنظر رکھتے ہوئے دیگر طاقتور ممالک کی شرکت کے پیش نظر مودی کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اگر وہ ذاتی طور پر نہیں تو ورچوئلی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔سفارتی ذرائع کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی موجودہ صورت حال کےپیش نظرمودی شاید ہی پاکستان کا دورہ کریں۔وزیراعظم مودی کو یہ دعوت ایس سی او کے پروٹوکول کے مطابق دی گئی ہے۔ بھارت کی جانب سے فی الحال اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق حالیہ کشیدگی کے باعث مودی کی جگہ کسی بھارتی وزیر کو کانفرنس میں شرکت کے لئے بھیجے جانے کا امکان ہے۔ تاہم حالیہ بعض واقعات کی وجہ سے اس پر بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ مبصرین کے مطابق کسی بھارتی وزیر خارجہ کا آخری دورہ پاکستان سشما سوراج نے 2015 میں کیا تھا۔

خیال رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی اتحاد ہے، جس کی بنیاد 2001 میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان نے رکھی تھی۔ اس کے بعد اس میں توسیع ہوئی تاکہ بھارت، پاکستان اور ایران کو مکمل ممبر کے طور پر شامل کیا جا سکے۔ جبکہ افغانستان، بیلاروس اور منگولیا بطور مبصر شامل ہوتے ہیں۔ایس سی او علاقائی سلامتی کے خدشات بشمول دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے کے لیے اہم ہے۔ یہ رکن ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں اور انٹیلی جنس شیئرنگ کرتا ہے۔ایس سی او بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو جیسے اقدامات کے ذریعے اقتصادی تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ یہ پورے یوریشیا میں تجارت، توانائی کی شراکت داری، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو بڑھانا چاہتا ہے۔

مبصرین کے مطابق ماضی میں اس طرح کی علاقائی تظیموں نے بھارت اور پاکستان کو اپنے تعلقات کو بحال کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ لیکن دونوں دیرینہ حریف ملکوں کے درمیان تعلقات میں انتہائی کشیدگی کے مدنظر اب ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ماضی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے وزیراعظم شہباز شریف کے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔ لیکن پاکستان جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بھارتی فیصلے  کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔

Back to top button