عوامی عدالت نے یوتھیے بندیال کی چھٹی کا فیصلہ سنا دیا

پاکستان میں ماضی قریب میں ایسی نظیر نہیں ملتی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے کسی فیصلے پر حکومت وقت اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اس قدر نالاں ہوئی ہوں کہ صدائے احتجاج کے لیے جگہ کا انتخاب بھی عدالت کے عین سامنے کیا جائے لیکن پیر کو ایسے مناظر اب ریکارڈ کا حصہ بن گئے ہیں، عدالت کے باہر نہ صرف احتجاج ہوا بلکہ کھلے عام تقاریر بھی کی گئیں۔ پی ڈی ایم قیادت نے متفقہ طور پر جسٹس بندیال سے مستعفی ہو کر اپنا عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ چیف جسٹس عمران خان کی محبت میں آئین شکنی کرنے کی وجہ سے اس عہدے کے اہل نہیں رہے اس لئے فوری استعفی دیں اور گھر جائیں۔

 پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مظاہرے پر ملک کے کئی حلقوں میں تبصرے اور تنقید ہو رہی ہے۔ کچھ اس احتجاج کو سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کا ہتھکنڈا قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ انتشار پھیلانے کی کوشش لیکن حکومتی جماعتوں کا موقف ہے کہ احتجاج ان کا حق ہے۔موجودہ حکومت سپریم کورٹ، خاص طور پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے کئی فیصلوں پر پہلے بھی متعدد مرتبہ تنقید کرتی آئی ہے، لیکن گذشتہ ہفتے القادر ٹرسٹ سے متعلق کیس میں نیب کی حراست میں موجود سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے پر نہ صرف حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) بلکہ حکومتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پی ڈی ایم نے کھلے عام عدالت عظمٰی اور چیف جسٹس پر کڑی تنقید کی۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے باہر پیر کو دھرنے کی کال دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’عوام اب عوامی عدالت میں فیصلہ کرے گی۔‘تاہم بعد میں انہوں نے سپریم کورٹ کے باہر اپنے خطاب میں اس ’احتجاجی دھرنے‘ کو یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ ’ضرورت پڑی تو دوبارہ اسلام آباد آئیں گے۔‘ تاہم مسلم لیگ ن کی سینئر نائب مریم نواز نے اپنے خطاب میں  چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

پی ڈی ایم کے سپریم کورٹ کے باہر چیف جسٹس مخالف احتجاج بارے سابق صدر سپریم کورٹ احسن بھون کا کہنا تھا کہ ملک میں متوازن رویوں کے نہ ہونے کے سبب پیدا ہونے والی صورت حال باعث تشویش ہے۔احسن بھون نے کہا کہ ’پورے جمہوری نظام کو خطرہ نظر آ رہا ہے۔‘ خیال رہے کہ جس وقت سپریم کورٹ کے باہر احتجاجی مظاہرین جمع ہو رہے تھے تو عین اس وقت عدالت میں انتخابات سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کہ جس طرح اداروں پر حملے ہو رہے ہیں وہ باعث تشویش ہے۔اگرچہ حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن سے کہا تھا کہ وہ احتجاجی دھرنے کا انعقاد ریڈ زون سے باہر کسی مقام پر کریں لیکن مولانا نے ان کی نہ سنی اور عین سپریم کورٹ کے گیٹ کے سامنے ان کے حامیوں نے سٹیج سجا دیا۔

اس احتجاجی مظاہرے میں بڑی تعداد تو مولانا کے حامیوں ہی تھی اور سکیورٹی انتظام بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے محافظ ونگ انصارالاسلام ہی کے ذمہ تھی لیکن مسلم لیگ (ن) کے بھی ملک بھر سے قافلے شاہراہ دستور پر موجود تھے جب کہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کی نمائندگی بھی احتجاج میں نظر آئی۔

خیال رہے کہ ماضی قریب میں بھی سپریم کورٹ کے باہر احتجاجی مظاہرین تو دیکھے گئے لیکن وہ احتجاج براہ راست عدالت عظمٰی کے خلاف نہیں تھا بلکہ 2014 میں حکومت مخالف احتجاج میں شامل لوگوں نے عدالت عظمی کے باہر ڈیرے ڈالے رکھے اور بعض نے اپنے گیلے کپڑے سپریم کورٹ کی بیرونی دیوار پر لگی لوہے کی سلاخوں پر سکھائے۔

لیکن پیر کو ہونے والا احتجاج مختلف تھا جو براہ راست چیف جسٹس اور ان کے ان ساتھی ججوں کے خلاف تھا جو حکومت کے بقول عمران خان سے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ عدالت کی جانب سے براہ راست تو ان الزامات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے اور ان کے تمام فیصلے اسی کے تحت ہیں۔ سپریم کورٹ کے عمرانڈو ججز کو نہ صرف حکمران اتحاد جماعتوں کی جانب سے سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں تنقید کا سامنا ہے بلکہ پارلیمنٹ کے اندر بھی سخت تقاریر ہو رہی ہیں۔پارلیمنٹ میں  خواجہ آصف، احسن اقبال اور اسد محمود سمیت اتحاد کے کئی رہنماؤں نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس عطا عمر بندیال کو آڑے ہاتھوں لیا۔ خواجہ آصف نے الزام لگایا کہ صرف تین ججوں کی ایک مخصوص بینچ بنا دی جاتی ہے جب کہ احسن اقبال نے چیف جسٹس بندیال پر جانبدار ہونے کا الزام لگایا۔

قانونی حلقوں سے وابستہ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم کا مظاہرہ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کا ہتھکنڈا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اس دباؤ کا خطرناک نتیجہ نکل سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا، ”کسی بھی ملک میں سپریم کورٹ تنازعات کو حل کرنے کا آخری ادارہ ہوتا ہے۔ اس کے فیصلے کو تسلیم کیا جاتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن یہاں مجمع جمع کر کے سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، جو ملک کو انتشار کی طرف لے کر جا سکتا ہے۔‘‘

تاہم پی ڈی ایم اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ وہ عدلیہ پر دباؤ ڈال رہی ہے یا اس پر اثر انداز ہورہی ہے۔ مظاہرہ میں شریک جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما اور فضل الرحمن کے مشیر محمد جلال الدین ایڈوکیٹ نے بتایا، ”چیف جسٹس ہمارے زیر اثر نہیں بلکہ عمران خان کے زیر اثر ہیں اور اس مجرم کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ایک سال سے اس کی طرف داری کر رہے ہیں۔‘‘جلال الدین کا کہنا تھا کہ مظاہرے کا مقصد دباؤ ڈالنا نہیں بلکہ جمہوری حق کا استعمال کرنا ہے۔

اس تمام تر صورت حال کا انجام کیا ہو گا، بظاہر نہ تو سیاسی جماعتیں اس سے آشنا ہیں، نہ پارلیمان اور نہ ہی ملک کے اہم ادارے۔ آئینی، معاشی، انتظامی اور دفاعی مسائل کو سلجھانے والے اگر ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے تو پھر حالات کو قابو میں کون لائے گا، دھرنے سے بھی اس بات کا واضح جواب تاحال نہیں مل سکا ہے۔

Related Articles

Back to top button