شہباز کی اتحادی حکومت میں اصل اختیار کس کے پاس ہو گا؟

پاکستان میں رواں ماہ ہونے والے عام انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے اور سیاسی جوڑ توڑ اور مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد اب پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن میں مخلوط حکومت بنانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین یہ نئی ڈیل اس وقت کی یاد دلاتی ہے، جب 2022ء میں ان دونوں سمیت اس وقت اپوزیشن میں موجود دیگر جماعتوں نے اتحاد کر کے عمران خان کو ایک عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزیر اعظم کے منصب سے ہٹایا تھا۔ تاہم اب سوال یہ ہے کہ اس تازہ پیش رفت کے بعد آنے والے وقتوں میں پاکستان کی سیاست اور حکومت میں کون لوگ اہم کردار ادا کریں گے۔

مبصرین کے مطابق شریف خاندان ان دو خاندانوں میں سے ایک ہے جو کئی دہائیوں تک پاکستان میں اقتدار میں رہا ہے۔ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن کے نتائج سے قبل یہ خیال بھی کیا جا رہا تھا کہ ان کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور اس وجہ سے ان کی سیاسی جماعت، یعنی مسلم لیگ ن ہی عام انتخابات میں فاتح ہوگی لیکن واضح اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے اب ن لیگ پی پی پی کے ساتھ کی گئی ڈیل کے تحت ایک سیاسی اشتراک اور مخلوط حکومت کا حصہ ہوگی۔اس معاہدے کے تحت ن لیگ کے شہباز شریف کو ایک بار پھر وزیر اعظم کے منصب کے لیے نامزد کیا گیس ہے اور انہیں اپنی جماعت کے علاوہ پی پی پی کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔

 تاہم الیکشن سے قبل یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شہباز شریف نہیں، بلکہ ان کے بڑے بھائی نواز شریف اس اہم منصب کے لیے ن لیگ کا انتخاب ہوں گے۔ نواز شریف، جو الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے ہی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد لندن سے پاکستان لوٹے تھے، تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی وطن واپسی کو ان کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی علامت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا۔ تاہم اب 2024ء کے الیکشن کے نتائج کے تناظر میں ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اپنے بڑے بھائی کی نسبت بہتر ثالث ہیں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے ان کے فیصلوں اور پالیسیوں پر اثر انداز ہونا زیادہ آسان ہوگالیکن ساتھ ہی تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے، تب بھی حقیقی طاقت و اختیار نواز شریف کے ہی ہاتھ میں ہوں گے۔

ن لیگ سے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت پیپلزپارٹی نے آصف علی زرداری کو پاکستان کے صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔آصف علی زرداری پہلے بھی ایک بار پاکستان کے صدر رہ چکے ہیں۔ 68 سالہ آضف زرداری بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صدر بنے تھے۔ پی پی پی اور ن لیگ کے درمیاں اس نئے اتحاد کے تحت نئی حکومت کے لیے مختلف وزارتوں کے لیے نامزد کیے گئے افراد کے ناموں کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔

جیل میں قید عمران خان اس بار الیکشن نہیں لڑ سکے اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو نہ صرف انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا، بلکہ ان کی پارٹی کے لیڈران کو قانونی کارروائیوں کا سامنا بھی رہا اور پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان بلے سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اس طرح اس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والوں کو مجبوراً بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔ان تمام مشکلات اور عمران خان کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ان آزاد امیدواروں کی تھی جنہیں تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی ۔ تاہم یہ تعداد حکومت بنانے کے لیے ناکافی ہے تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کر کہ اس کے کئی امیدواروں کو ہرایا گیا ہے۔

اب قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے مخصوص نشستیں حاصل کرنے اور حکومت بنانےکی امید میں تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل نامی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آؕئی سے منسلک آزاد امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی منظوری دے دیتا ہے، تو ان کی جانب سے عمر ایوب کو وزیر اعظم کے منصب کے لیے نامزد کیا جائے گالیکن عام خیال یہی ہے کہ تب بھی اصل طاقت اور اختیار عمران خان کے ہی ہاتھ میں ہو گا۔

Related Articles

Back to top button