مارگلہ کی پہاڑیوں پر آگ کی ویڈیو نے کہرام کیوں برپا کیا؟


ایک طرف دنیا ہولناک موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے جس سے بچائو کے لیے جنگلات اور جنگلی حیات کو تحفظ دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان میں ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کیلئے جنگلات کو آگ لگائی جا رہی ہے، جی ہاں! یہ شرمناک کارنامہ ڈولی نامی ٹک ٹاک خاتون نے سر انجام دیا۔ اس نے اپنی ویڈیو وائرل کروانے کے لیے مارگلہ کی پہاڑیوں میں آگ لگائی تو سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا، جس پر ہر جانب سے اس کی مذمت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے مارگلہ اسلام آباد میں آگ لگانے والی خاتون ماڈل کے خلاف پولیس کو درخواست دی جس میں کہا گیا کہ ٹک ٹاکر کے خلاف ماحولیات، وائلڈ لائف اور فارسٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے، پولیس نے تفتیش کے بعد مقدمہ درج کر کے ٹک ٹاکر کے ایک ساتھی کو گرفتار کرلیا ہے۔ اسلام آباد میں وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرمین رعنا سعید خان کہتی ہیں کہ جنگلات میں آگ لگانا کھیل تماشا نہیں ہے بلکہ یہ ہولناک جرم ہے، اس جرم کی آسڑیلیا جیسے ممالک میں سزا عمر قید ہے، پاکستان میں بھی جنگلات اور پہاڑوں پر آگ لگانے کے عمل پر قابو پانے کے لیے اتنی ہی سخت سزا کی ضرورت ہے۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں پچھلے کچھ دونوں میں آتشزدگی کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جس میں ایک وسیع رقبے پر پودوں،گھاس اور چرند پرند کو نقصاں ہوا۔ خاتون ماڈل کی جانب سے جنگل میں آگ لگا کر بنائی جانے والی ٹک ٹاک ویڈیو اس طرح کی پہلی ویڈیو نہیں ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ایسی کئی وڈیوز وائرل ہوچکی ہیں جن میں ٹک ٹاکر جنگل میں آگ لگا کر ویڈیوز بنا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کی سابق ممبر صوبائی اسمبلی آمنہ سردار کا کہنا تھا کہ ’لوگوں نے تو تماشا لگا دیا ہے، بارشیں ہو نہیں رہی ہیں، خشک سالی کا دور چل رہا ہے، جس ٹک ٹاکر کا دل چاہتا ہے وہ اٹھتا ہے اور جا کر جنگل میں آگ لگا کر ویڈیو بنا دیتا ہے۔ جنگلات اور پہاڑوں میں آگ لگانے کے واقعات کیخلاف سرگرم عمل سعد اورنگ زیب کے مطابق عموما جنگل اور پہاڑوں پر آگ اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں یہ سوچ کر لگائی جاتی ہے کہ اس طرح اچھی گھاس حاصل ہوگی مگر یہ حقیقت نہیں ہے، اس دفعہ پتا نہیں کیوں عید کے بعد سے ایسے واقعات شروع ہیں۔

پاکستانی سوشل میڈیا پر ٹک ٹاکرز اور نوجوانوں کی جانب سے شوقیہ ویڈیوز کے لیے جنگلات میں آگے لگانے کی ویڈیوز وائرل ہونے لگیں تو سوشل میڈیا صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا، لوگوں کا کہنا تھا کہ نوجوان فضول ویڈیوز کے لیے درختوں اور جانوروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، سوشل میڈیا صارفین نے ایسے لوگوں کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کیا۔
سوشل میڈیا پر ایک شخص کی جانب سے ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں ایک گھونسلے سے کسی پرندے کے بچوں کو ریسکیو کیا گیا، ان پرندوں کا گھونسلہ اور ارد گرد کا علاقہ جل چکا تھا، اس ویڈیو پر کئی لوگوں نے جہاں دکھ اور افسوس کا اظہار کیا وہیں کئی لوگ آگ لگانے والوں کو کوستے نظر آئے۔

ایک صارف کا کہنا تھا کہ یہ کیسی نسل ہے، والدین اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں، ہم مکمل تباہی کی طرف جا رہے ہیں، صرف 60 سیکنڈ کے کلپ کی خاطر دیکھیں بھول گئے کہ ہم 60 سال میں بدترین درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس عمل پر سرزنش کرتے ہوئے یہ پوچھتے نظر آئے کہ اس جرم کی پاکستان میں کیا سزا ہے؟ایک صارف صوفیہ قیصر نے تو سزا کے ساتھ ساتھ بحالی کا طریقہ بھی تجویز کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاکر کو ’گرفتار کرنا آسان ہے، انہیں بطور سزا تمام متاثرہ علاقے میں تین فٹ اونچے ہزاروں پودے لگانے کی سزا دی جائے۔

Related Articles

Back to top button