فوج سے مذاکرات: کیا کپتان کی منت اور دھمکیاں اثر دکھائیں گی؟

پی ٹی آئی کے سول بالادستی اور نام نہاد آزادی تحریک کے بیانیے کی حقیقت کھل کر عوام کے سامنے آ چکی ہے۔ ماضی قریب میں کھلے عام عسکری قیادت پر بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کرنے والی تحریک انصاف قیادت نے اب اسٹیبلشمنٹ سے ایک بار پھر مذاکرات کی بھیک مانگنا شروع کر دی ہے۔جہاں ایک طرف حکومتی پیشکش کے باوجود پاکستان تحریک انصاف موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت سے انکاری ہے وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما فوج کے ساتھ جلد مذاکرات شروع کرنے کے دعوے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی ایک مقامی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے فوج کے ساتھ جلد مذاکرات ہوں گے۔ تاہم سیاسی حلقوں ہی جانب سے عمرانڈو رہنما کی دھلائی کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے شہریار آفریدی کے اس بیان سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے اِسے اُن کی ذاتی رائے یا معلومات قرار دے دیا ہے تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے معاملے پر پی ٹی آئی میں کوئی تقسیم ہے یا یہ سیاسی حکمت عملی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شہریار خان آفریدی نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُن کے بہت جلد فوج سے مذاکرات شروع ہوں گے۔شہریار خان آفریدی نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ حکومت کے پاس ہمارے ساتھ مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ مسترد شدہ لوگ ہیں ہم سے کیا بات کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے لیے فوج سے مذاکرات چاہتے ہیں، فوج سے مذاکرات ہوں گے اور بہت جلد ہوں گے۔‘

اس بیان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن نے شہریار آفریدی کے بیان کو اُن کی ذاتی رائے اور معلومات قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’شہریار خان آفریدی کا بیان پارٹی پالیسی نہیں، اسٹیبلشمنٹ سے صرف آئینی کردار سے متعلق بات ہو گی۔‘ان کے مطابق ’ہم سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے مخالف نہیں ہیں۔ عمران خان کی واضح ہدایت ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم سے بات نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے تحریک انصاف کا مینڈیٹ چرایا ہے۔‘

تاہم اس اختلاف رائے کے حوالے سے سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق پی ٹی آئی قیادت کے عسکری قیادت سے مذاکرات بارے مختلف بیانات سے’بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو لے کر پاکستان تحریک انصاف میں کوئی تقسیم ہے لیکن حقیقت اس سے ذرا مختلف معلوم ہوتی ہے۔‘رسول بخش رئیس کے مطابق ’سیاسی جماعتیں ہمیشہ کسی ایسے معاملے پر واضح پالیسی کے ساتھ نہیں چلتیں۔ پی ٹی آئی بھی اسی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ پارٹی کے اندر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے معاملے پر کوئی تقسیم نہیں ہے۔ یہ اُن کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ تاکہ اسٹیبلشمنٹ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ چاہتے کیا ہیں۔‘

رسول بخش رئیس کے خیال میں یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان تحریک انصاف فوج سے ہی مذاکرات چاہتی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی مقتدر حلقوں کو یہ باور کروانا چاہتی ہے کہ ہم عوامی نمائندہ جماعت ہیں اور عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان لڑائی میں کسی کی جیت نہیں ہو گی۔رسول بخش رئیس کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف تصادم کی نہیں بلکہ مفاہمت کی سیاست چاہتی ہے مگر یہ مفاہمت وہ نواز شریف یا آصف علی زرداری کے ساتھ نہیں، فوج کے ساتھ کرنا چاہتی ہے۔

دوسری جانب سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ عمران خان شروع دن سے ہی فوج کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں تاہم پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت اس بات کا کھلے عام اظہار نہیں کرتی۔ ضیغم خان کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی فوج کے ساتھ مذاکرات کے بیانات دیتے آئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس ان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی پی ٹی آئی میں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے متعلق مختلف بیانات سننے کو ملتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے ایک مرتبہ کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا پیغام آیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے ایسا کوئی پیغام آنے کی تردید کی۔ضیغم خان کے مطابق ’پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کسی ایک موقف پر نہیں کھڑی ہوتیں کیونکہ وقت آنے پر اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب یا اُن سے دوری بھی اختیار کرنا پڑ سکتی ہے۔‘’اس وقت پی ٹی آئی بھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر پچ کے دونوں اطراف کھیل رہی ہے۔ وہ مذاکرات کرنا تو چاہتی ہے مگر اس کا سر عام اظہار بھی نہیں کر سکتی۔‘

ضیغم خان کا کہنا تھا کہ سینیٹر عرفان صدیقی کی جانب سے جب پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تو تب بھی پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز نے مذاکرات کے ایجنڈے پر سوال کیا تھا کہ آیا مذاکرات کس کے کہنے پر کیے جائیں گے۔’یعنی پاکستان تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اُن پر عائد مقدمات کا خاتمہ، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر تحقیقات اور عمران خان کی رہائی جیسے معاملات بارے موجودہ حکومت کے پاس اختیارات نہیں۔ اسی لیے وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کرتی ہے۔‘

Related Articles

Back to top button