عمرانڈوز نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا شوشا کیوں چھوڑا؟

مسلم لیگ ن کے قائد کی وطن واپسی کے اعلان کھ بعد سے ملک میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔پہلے تو اچانک سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی سیاسی منظر نامے میں انٹری مارتے ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات کرنے کے بعد میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں اور مفاہمت کا سبق پڑھانا شروع کردیتے ہیں، فوج سے محاذ آرائی نہ کرنے کے فوائد بیان کرتے ہیں، تاثر دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ فوج سے لڑائی کی جائے، ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بڑھتا ہے۔صدر علوی بچی کچھی پی ٹی آئی کے ایک وفد جس میں سابق اسپیکر اسد قیصر، ترجمان تحریک انصاف رؤف حسن اور دیگر کچھ لوگوں سے محمد علی درانی کی ملاقات کا انتظام کرتے ہیں۔ اسی دوران پشاور اور لاہور میں سانحہ 9 مئی کے ملزمان کی صرف ضمانتیں ہوتی ہیں، رہائی نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا پر ایک مہم کا اغاز ہوجاتا ہے کہ ’محمد علی درانی کی ملاقاتوں اور ڈیل کا نتیجہ نکلنا شروع ہوگیا، ضمانتیں ہونا شروع ہوگئیں، اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے ڈیل کی کوششیں شروع کردیں‘ اس مہم کا مقصد اور ٹارگٹ بہت باریک تھا کیونکہ محمد علی درانی کی اس ساری مفاہمتی کارروائی سے تاثر یہی مل رہا تھا کہ جیسے انہیں اسٹیبلشمنٹ نے کوئی مینڈیٹ دیا ہے۔ سینئرصحافی پرویز سندھیلا کے وی نیوز کیلئے تازہ تجزیے کے مطابق ایک طرف میاں نوازشریف کی واپسی کے اعلان کو ن لیگ کے ورکر تازہ ہوا کا جھونکا محسوس کررہے تھے کہ اب ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن جب یہ مہم چلی تو ن لیگ کے کارکنوں کے ذہن میں سوالات اٹھنے لگے کہ نوازشریف کی واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی ہو ا کا رخ بدل رہا ہے یا پھر بدل گیا ہے، بد گمانی نے ڈیرے ڈالنا شروع کردیے۔ یہی اس مہم جوئی کا مقصد تھا کہ لندن میں نوازشریف اور پاکستان میں ن لیگ کے ورکر کو کنفیوژ کیا جائے۔ ان کے جذبات کو چھیڑا جائے اور پھر انہی جذبات میں بہہ کر وہ اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہنا شروع کردیں اور پی ٹی آئی اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور اپنے لیے راہ ہموار کرلے۔ پرویز سندھیلا کے مطابق یہ پلاننگ تب ناکام ہوئی جب سانحہ 9 مئی کے ملزمان کی دوبارہ گرفتاریاں ہوئیں۔ رہی سہی کسر محمد علی درانی اور عارف علوی کے بچھائے جال کی حقیقت عیاں کرکے پوری کردی گئی۔ بتایا گیا کہ محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ کے خود ساختہ ترجمان بنے ہوئے ہیں، انہیں ایسا کوئی مینڈیٹ نہیں دیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان سے ڈیل کرائیں۔ درحقیقت محمد علی درانی، عارف علوی سے دیرینہ رفاقت رکھتے ہیں اور اسی رفاقت کے پیش نظر یہ چال چلی گئی۔ جس کا ٹارگٹ ن لیگ تو تھی ہی ساتھ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا بریگیڈ اور عام کارکن بھی تھے۔ انہیں طفل تسلیاں دینا بھی مقصود تھا تاکہ وہ حوصلے پست نہ کر بیٹھیں۔ پرویز سندھیلا کے بقول نوازشریف کی واپسی تک ایسے بہت سے اتار چڑھاؤ آئیں گے، ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ حالات پلٹا کھا جائیں اور نوازشریف واپس نہ آئیں کیونکہ نوازشریف کی واپسی ہی گیم چینجر ہے۔ ن لیگ کی بہت سی انتخابی مشکلات نواز شریف کی پاکستان واپسی سے دور ہوجائیں گی۔ باقی مشکلات کو نوازشریف خود عوام میں اتر کر دور کرسکتے ہیں۔ نوازشریف کی وطن واپسی اس وقت پاکستانی سیاست کے پُل صراط عبور کرنے کے مترادف ہے۔ نوازشریف کو چاہیے اپنے تمام پتے واپسی تک سینے سے لگاکر رکھیں۔ وقت سے پہلے پتوں کا ظاہر کرنا بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button