پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ختم

حکومت اور پاکستان تحریک اںصاف کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بغیر کسی نتیجہ ختم ہو گیا، اتحادی حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر تجارت نوید قمر ، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور سابق وزیراعظم سینیٹر یوسف رضا گیلانی مذاکرات میں شریک ہیں۔ وفاقی حکومت میں شامل ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے کشور زہرہ اور محمد ابوبکر بھی مذاکرات میں شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر مذاکراتی کمیٹی میں شامل ہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات پارلیمنٹ ہاؤس میں ہو رہے ہیں، فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہونے سے قبل حکومتی اور تحریک انصاف کی کمیٹی ارکان نے چیئرمین سینیٹ کے چیمبر میں مشاورت کی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا تھا کہ حکومت نے تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کو 6 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملنے کی دعوت دی ہے، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر تحریک انصاف کی نمائندگی کریں گے۔

اس سے قبل آج صبح چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت کی تجویز پر ملک میں جاری سیاسی جمود توڑنے کے لیے مذاکراتی کی کوششیں شروع کردیں تھیں اور اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دینے کے لیے سینیٹ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو الگ الگ خطوط لکھے تھے۔

صادق سنجرانی نے اپنے خطوط میں کہا کہ موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال میں سیاسی جماعتوں میں رابطے کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت ایوان بالا کے چیئرمین حکومت اور اس کے اتحادیوں نے معاشی اور سیاسی بحران بشمول عام انتخابات کے انعقاد پر سیاسی مذاکرات کے آغاز کے لیے سہولت کاری فراہم کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن اراکین سینیٹ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو جوابی خط لکھتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پہلے تین رکنی اعلیٰ اختیاری کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے، حکومت سے معنی خیز مذاکرت کے لیے شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر کا نام تجویز کیا، کمیٹی آئینی دائرہ کار میں رہ کر اور سپریم کورٹ احکامات کے عین مطابق مذکرات کرے گی۔

خط میں مزید کہا گیا کہ حکومت کو پی ٹی آئی کے تین رکنی کمیٹی سے آگاہ کیا جائے، حکومت عام انتخابات سے متعلق تجاویز سپریم کورٹ کے سامنے رکھے اور عام انتخابات کو تاخیر کا شکار نہ کرے۔

خیال رہے کہ 20 اپریل کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں سے کہا تھا کہ وہ 26 اپریل تک مذاکرات کریں اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد 27 اپریل (آج) تک جواب جمع کروائیں۔

سیاسی جماعتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اس معاملے پر جلد فیصلہ کریں کیونکہ انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ دی جاچکی ہے اور اس کی پابندی کا حکم تمام حکام پر لازم ہے تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی مذاکرات نہ ہوسکے اور حکومت نے بھی عدالت کی جانب سے 4 اپریل کو جاری کردہ ہدایت کی تعمیل سے انکار کر دیا ہے، لہٰذا اب تمام نظریں عدالت کے اگلے اقدام پر جمی ہوئی ہیں۔

گزشتہ سماعت کے بعد جاری تحریری حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ 26 اپریل کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اجلاس ہوگا، 27 اپریل تک سیاسی رابطوں اور ڈائیلاگ کی پیش رفت رپورٹ جمع کروائی جائے گی۔آج دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی، عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تاکہ تنازع کا حل نکلے، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے، صرف حل بتائیں، چیئرمین سینیٹ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگے گا۔

اس دوران پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، سینیٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔

فاروق نائیک نے مزید کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے، مذاکرات سیاسی جماعتوں کی کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں، سیاسی ایشو ہے اس لیے سیاسی قائدین کو ہی مسئلہ حل کرنے دیا جائے، سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے۔

پی ٹی آئی کیساتھ مذاکرات کا حصہ نہیں بن رہے

Related Articles

Back to top button