اپنے اصولوں سمیت موت کی وادی میں اترنے والے علی گیلانی


پانچ دہائیوں تک جموں کشمیر کے سیاسی منظرنامے پر چھائے رہنے والے بزرگ مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی جسمانی طور پر اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کے باوجود اپنی جدوجہد اور آزادی کشمیر کے دیرینہ مؤقف کی صورت میں ایسا سیاسی اور نظریاتی ورثہ پیچھے چھوڑ گئے جو مختلف اور متضاد خیالات رکھنے والے کشمیریوں کو بھی متحد کرتا ہے. آزادی کشمیر کے پوسٹر بوائے کے طور پر معروف سید علی گیلانی طویل عرصے تک کشمیر میں دو درجن سے زیادہ ہند مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے سربراہ رہے۔ تاہم 2020 میں انھوں نے حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ لیکن اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’اس دیار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔‘
انھیں جموں کشمیر کی سیاست میں ایک سخت گیر موقف کا حامی سیاستدان سمجھا جاتا تھا اور وہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیے جانے کے بہت بڑے حامی تھے۔ علی گیلانی اپنے سیاسی سفر میں اکثر جیل جاتے رہے اور عمر کی تقریباً ایک دہائی انھوں نے قیدخانوں میں گزاری۔ اُن کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔
سید علی گیلانی کے اجداد مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے تھے۔ وہ شمالی کشمیر کے سوپور قصبے میں ڈُورو گاوں کے ایک آسودہ حال گھرانے میں 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے، جہاں وہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات اور علامہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر ہوکر لوٹے۔
سید علی گیلانی نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کیں۔
کشمیر واپسی پر انھوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ شعر و سخن سے شغف اور حُسنِ خطابت کی وجہ سے بہت جلد جماعت کے اہم رہنما کے طور مشہور ہوگئے۔
انھوں نے 1977 ،1972 اور 1987 میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا۔ مقامی اسمبلی میں وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے، تاہم 87 رُکنی ایوان میں جماعت کو چند سیٹیں ہی ملتی تھیں لہذا اُن کی سیاست اسمبلی کے اندر حاشیے پر ہی رہی۔ 1987 میں گیلانی نے مسئلہ کشمیر کے حل کی حامی پاکستان نواز تنظیموں کے اتحاد مسلم متحدہ محاذ کی حمایت میں الیکشن لڑ کر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو تاریخی چیلنج پیش کیا، تاہم انتخابات میں ‘بدترین دھاندلیوں’ اور کانگریس کی حمایت سے فاروق عبداللہ اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور سید علی گیلانی سمیت محاذ کے بھی اُمیدواروں نے الیکشن جیت لیا۔ چند سال بعد جب کشمیر میں پاکستان کی حمایت سے ہمہ گیر مسلح شورش برپا ہوئی اور محاذ کے ایک رُکن اسمبلی عبدالرزاق بچرو پُراسرار حالات میں مارے گئے تو گیلانی سمیت چاروں ارکان، اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہو گئے۔ ان کے ساتھ روشن خیال پیپلز کانفرنس کے رہنما عبدالغنی لون نے بھی استعفیٰ دیا اور دونوں نے تحریکِ آزادی کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ لیکن صرف دو سال کے اندر اندر کشمیر میں گورنر راج نافذ ہوا اور فاروق عبداللہ لندن میں مقیم ہوگئے۔
علی گیلانی نے مسلح تحریک کی کھل کر حمایت کی اور اسے کشمیریوں کی طرف سے ‘تنگ آمد بہ جنگ آمد’ کے مصداق ایک ردعمل قرار دیا۔ انھوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں ہی گیلانی ایک مقبول عام پاکستان نواز رہنما کے طور اُبھرے لیکن عبدالغنی لون کے ساتھ ان کے نظریاتی اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق علی گیلانی مسئلہ کشمیر کو ایک اسلامی مسئلہ کہتے تھے جبکہ لون اسے ایک خالص سیاسی مسئلہ قرار دیتے تھے۔ اسی دوران اسلام آباد نے پاکستان نواز عسکری گروپوں کی کھل کر حمایت کی اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ جیسی تنظیموں کو نظرانداز کیا، جس کے نتیجے میں حزب المجاہدین اور پاکستان سے مکمل آزادی کی خواہاں جماعتوں کے درمیان نظریاتی جنگ چھڑ گئی۔ سینکڑوں عسکریت پسند تصادموں میں مارے گئے۔ اسی پس منظر میں گیلانی اور لون نے کُل جماعتی حریت کانفرنس کے قیام میں کلیدی کردار نبھایا اور نظریاتی جنگ تھم گئی۔
حریت میں دونوں مکاتب فکر کی جماعتیں تھیں۔ حریت کانفرنس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کو بنیادی مطالبہ بنایا اور کشمیریوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک وقت مذاکرات کو متبادل کے طور پیش کیا لیکن 1996میں سخت ترین فوجی محاصرے میں ہوئے انتخابات کے بعد جب فاروق عبداللہ نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو نئی دلی نے علیحدگی پسندوں کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ ان کوششوں کی وجہ سے گیلانی اور دیگر رہنماؤں کے مؤقف واضح طور متصادم ہوئے۔ 2002 میں عبدالغنی لون کے قتل کے بعد جب کشمیر میں انتخابات ہوئے تو بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ گیلانی نے حریت کی اُس وقت کی قیادت پر الزام عائد کیا کہ اُس نے الیکشن بائیکاٹ میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ اسی اختلاف پر وہ اپنے حمایتیوں سمیت حریت سے الگ ہوگئے اور حریت کانفرنس کے سربراہ بن گئے۔ اس کے بعد گیلانی کا دھڑا ‘ہارڈ لائن’ یعنی سخت گیر کہلانے لگا اور میر واعظ کی سربراہی والا دھڑہ ‘ماڈریٹ’ یعنی اعتدال پسند قرار دیا گیا۔
امریکہ پر نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی آزمائشی دور سے گزر رہی تھی۔ ملک کی کمان فوجی حکمران پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھی اور امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی مخالف جنگ میں حلیف بنالیا تھا۔ اسی اثنا میں نئی دلی نے بھی حریت کانفرنس کی ’ماڈریٹ‘ قیادت کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ دونوں کی حکومتوں نے حریت قیادت کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار کئے ، لیکن ہر بار گیلانی ان مذاکرات کو ‘فضول مشق’ اور ‘وقت گزاری’ سے تعبیر کرتے رہے جس کی وجہ سے ان مذاکرات کو عوامی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔
مذاکرات کی مخالفت پر دلی میں اکثر حلقوں نے گیلانی کے اعتراض کو پاکستانی کارستانی بتایا۔ لیکن جب مشرف نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کنارے کر کے مسئلہ کشمیر کے حل کا چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تو سید علی گیلانی نے اس کی بھی مخالفت کی۔ نئی دلی میں پاکستانی سفارتخانے میں مشرف اور سید علی گیلانی کے درمیان 2005 میں ہونے والی ملاقات میں انھوں نے پرویز مشرف سے کہا کہ اُنھیں کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر اُن کے سیاسی مستقبل کا یکطرفہ فیصلہ لینے کا حق نہیں۔علی گیلانی کی رخصت کے بعد مشرف نے پنجابی میں اپنے ساتھیوں سے کہا کہ: ‘باباجی نُو گل سمجھ نی آندی، انھاں نوں کی پتہ ٹیکٹیکل ریٹریٹ کی ہوندا ہے۔
لیکن سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے پروفیسر شیخ شوکت حُسین کہتے ہیں کہ ‘پاکستان کو چیلنج کرنے سے علی گیلانی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اُن کا موقف مزید مضبوط ہوا اور وہ نوجوانوں کے لیڈر بن گئے۔ احتجاجی مظاہروں میں نوجوان اُن کی تصویر ایک انقلابی رہنما کے طور بلند کرنے لگے۔ گیلانی نے کئی مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ نئی دلی کے کئی مصالحت کاروں نے اُن سے رابطہ کر کے اُن سے مؤقف میں لچک لانے کی فرمائش کی، تاہم وہ اعادہ کرتے رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا ہے اور ‘اگر اس میں دلی کو دِقت ہے تو پاکستان، بھارت اور کشمیری قیادت کے درمیان بیک وقف سہ فریقی بات چیت بھی ایک متبادل ہے۔’
2014 میں جب نریندر مودی نے نئی دلی میں بی جے پی کی غالب اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا تو کشمیر کے تئیں نئی دلی کا رویہ سخت ترین ہوگیا۔ خدشات اور خوف کی فضا کے بیچ حریت کانفرنس کے ماڈریٹ حلقوں کا لہجہ گیلانی کے ساتھ ملنے لگا اور نظریاتی اختلاف کے باوجود میر واعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی اور یاسین ملک کی سیاسی سمت ایک جیسی نظر آنے لگی۔
2016 میں مقبول عسکریت پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد برپا ہونے والی عوامی تحریک نے تینوں رہنماؤں کو مشترکہ مزاحمتی فورم نامی بینر تلے اِکھٹا کر لیا اور عوام کی غالب اکثریت نے اس اتحاد پر اطمینان کا اظہاربھی کیا، کیونکہ فورم کی اپیلوں پر ہڑتالیں ہوتی تھیں اور مظاہرے بھی ہوتے تھے۔ گیلانی پہلے ہی کئی برسوں سے گھر میں نظر بند تھے۔ پھر پانچ اگست 2019 کو جمون کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا جس کے نتائج کشمیری آج بھی قدغنوں، گرفتاریوں اور خوف و ہراس کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ سید علی گیلانی اپنے دیرینہ مؤقف کی صورت میں ایسا سیاسی اور نظریاتی ورثہ چھوڑ گئے ہیں جو مختلف خیالات اور نظریات رکھنے والے لوگوں کو بھی متحد کرتا ہے.

Related Articles

Back to top button