کیا اس بار دہشت گردوں کے خلاف خاموشی سے فوجی آپریشن ہوگا؟

ذمہ دار سکیورٹی ذرائع نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ نہیں ہو پایا۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے کے عین مطابق دہشت گرد عناصر کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جائے گا اور اس حوالے سے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔

 سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن ریاست نے پوری طاقت کے ساتھ طالبان اور بلوچ دہشت گردوں کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ اپریل 2023 میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے پیش نظر قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں  شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک نیا جامع آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو پایا تھا۔ لہذا اس مرتبہ اعلان نہیں کیا جائے گا لیکن جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے دہشت گرد اور ان کے ٹھکانے ختم کرنے کیلئے سخت ترین آپریشن کیا جائے گا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں فوجی آپریشن کا اعلان نہ کرنا ریاستی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اس مرتبہ اعلان نہیں کیا گیا لیکن عملی طور پر آپریشن شروع کیا جا سکتا ہے۔ شاید اس بار عسکری قیادت فوجی آپریشن خاموشی کے ساتھ کرنا چاہتی ہے تاکہ آپریشن عزم استحکام کی طرح زیادہ شور شرابہ نہ مچے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے معاملے کو ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے کی تمام تر کوششیں کی جا چکی ہیں لیکن اب پارلیمنٹ میں موجود بلوچ قوم پرست قیادت بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر چکی ہے لہذا علیحدگی پسندوں کے دہشت گرد نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے فوجی آپریشن کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست بچانی ضروری ہے، کیونکہ ریاست پر جنگ تھوپ دی گئی ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ تلخ حقیقت اب سیاسی قیادت کی سمجھ میں بھی آ چکی ہے کہ سیاست بچانے کی بجائے ریاست کو بچانا ہوگا۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں آرمی چیف نے 50 منٹ بریفنگ دی جبکہ ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بھی اجلاس کو آگاہی دی، تاہم ماضی کی طرح اجلاس کے خاتمے پر کسی فوجی آپریشن کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس دسمبر 2014 کو پشاور پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد ملکی سویلین اور عسکری قیادت اکٹھے بیٹھی اور  تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ ہوا جو کافی حد تک کامیاب رہا تھا، لیکن 2018 میں عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد طالبان مخالف عسکری پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے خوراجی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ ہوا۔ بعد ازاں آرمی چیف جنرل قمر باجوا اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مل کر 30 ہزار سے زائد طالبان جنگجووں کو افغانستان سے واپس لا کر پاکستان میں بسا دیا۔ اس کا نتیجہ آج آخری حدوں کو چھوتی ہوئی دہشت گردی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔

پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک نئے عزم اور ولولے کا اعلان کیا ہو۔ 18 مارچ 2025 کو بھی دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کے تدارک کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس ہوا، جس میں ’نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمتِ عملی پر فوری عمل درآمد پر زور دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی کے سپیکر کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، سیاسی قائدین، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، اہم وفاقی وزرا اور فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کمیٹی نے ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سٹریٹجک اور متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تاہم اس اجلاس میں تحریک انصاف سمیت چند جماعتیں شریک نہیں تھیں۔ یہ اجلاس جعفر ایکسپریس پر بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے اور درجنوں مسافروں کے قتل عام کے بعد منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ’قومی سکامتی کمیٹی نے دہشت گردوں کے حق میں ریاست مخالف پروپیگنڈا پھیلانے، اپنے پیروکاروں کو بھرتی کرنے اور حملوں کو مربوط کرنے کے لیے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات پر زور دیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’کمیٹی نے دہشت گردوں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر بھی زور دیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ دشمن قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اعلامیے میں قومی سلامتی کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ اس بارے میں مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔ تاہم تحریکِ انصاف اور قوم پرست جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی نے عمران خان کی پیرول پر رہائی کا مطالبہ کیا تھا تاکہ انہیں اجلاس میں شرکت کی اجازت مل سکے۔ تاہم تحریک انصاف یہ مطالبہ کرتے وقت بھول گئی کہ عمران خان منتخب رکن اسمبلی نہیں ہیں لہذا وہ قومی سلامتی کمیٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے اہل نہیں۔

اس اعلامیے کے بعد فوج کے میڈیا ونگ آئی ایس پی آر کی طرف سے قومی سلامتی کے اجلاس سے آرمی چیف کے خطاب کی بھی تفصیلات شیئر کی گئیں۔ اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا تھا مگر اس میں آرمی چیف کے خطاب کی تفصیلات شامل نہیں تھیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری آرمی چیف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے، ہم کب تک سافٹ سٹیٹ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ’ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں۔ پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کہ تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔ علما سے درخواست ہے کہ وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں۔‘

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کیوں نہ ہوا؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، لہٰذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں۔ پاکستان کے تحفظ کے لیے یک زبان ہو کر اپنی سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنانا ہو گا۔‘ آرمی چیف کے بیان کے مطابق ’جو سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ان دہشتگردوں کے ذریعے کمزور کر سکتے ہیں آج کا دن ان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم متحد ہو کر نہ صرف ان کو بلکہ ان کے تمام سہولتکاروں کو بھی ناکام کریں گے۔‘

Back to top button