افغان طالبان نے پاکستان دشمن ٹی ٹی پی کی حمایت ختم کیوں کر دی ؟

افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کی پشت پناہی مکمل ترک کرتے ہوئے تحریک طالبان کے دہشتگردوں کو مکمل پٹہ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث تحریک طالبان پاکستان کے تخریب کاروں پر کریک ڈاؤن کے بعد اب افغان طالبان نے پہلی بار پاکستان پر حملہ کرنے والوں کو فسادی اور نافرمان قرار دے دیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کچھ معاملات پر اختلافات کے بعد پہلے کابل اور پھر چین میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستانیوں کو نشانہ بنانے والے افغان دہشتگردوں کیخلاف کریک ڈاؤن کاآغاز کر رکھا ہے۔ جس کے تحت نا صرف ٹی ٹی پی پرپاکستان میں تخریبی کارروائیاں روکنے کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے بلکہ اب تو کھلے الفاط میں انھیں خبردار کر دیا گیا ہے کہ ایسی کارروائیوں کا افغان طالبان اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں، مبصرین اس اہم پیشرفت کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات میں بہتری اور مضبوطی کا نقطہ آغاز قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس اہم پیشرفت سے پاک افغان تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔
واضح رہے کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو متنبہ کیا ہے کہ امیر کے حکم کے خلاف پاکستان میں لڑنا قطعاً ناجائزہے، طالبان امیر کے حکم کے بغیر بیرون ملک جہاد کرنے والے حقیقی مجاہد نہیں، جہاد کی اجازت دینا کسی فرد یا گروہ کا نہیں صرف ریاستی امیر کا اختیار ہے، ریاستی قیادت کے منع کرنے کے باوجود پاکستان جانا دینی نافرمانی ہے۔ کابل پولیس ہیڈکوارٹرز میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے افغان طالبان کے کمانڈر سعیداللہ سعید نے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث تحریک طالبان پاکستان کے تخریب کاروں کو خبردار کرتے ہوئے مزید کہا کہ امیر کے حکم کے خلاف کسی بھی ملک میں لڑنا جائز نہیں، مختلف گروہوں میں شامل ہوکر بیرون ملک جہاد کرنے والے حقیقی مجاہد نہیں ہو سکتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ حملے کرنے والے افراد کو مجاہد کہنا غلط ہے، جہاد کا اعلان یا اجازت دینا کسی گروہ یا فرد کا نہیں،صرف ریاستی امیر کا اختیار ہوتاہے اگر ریاستی قیادت کسی ملک میں نہ جانے کا حکم دے چکی ہے تو اس کے باوجود جانا دینی نافرمانی ہے۔کمانڈر سعید اللہ سعید نے کہا کہ اپنی انا یا گروہ کی وابستگی کی بنیاد پر کیا گیا جہاد شریعت کے مطابق فساد تصور کیا جائے گا، جہاد کے نام پر حملے کرنے والے گروہ شریعت اور افغان امارت دونوں کے نافرمان ہیں۔
دفاعی ماہرین کے مطابق افغان طالبان کا یہ بیان پاکستان کی داخلی سلامتی، بیانیے اور عالمی سطح پر سفارتی مؤقف کو مضبوط کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی پراکسیز اور بھارتی ایما پر ٹی ٹی پی کا نام نہاد جہاد دراصل شریعت، ریاست اور امن کے خلاف دہشت گردی ہے۔
اس پیشرف سے واقف ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران زیادہ تر توجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر مرکوز رہی لیکن اسی عرصے کے دوران اسلام آباد اور کابل نے خاموشی سے کام کیا تاکہ کشیدگی کے شکار تعلقات کو بحال کیا جا سکے۔پہلی بار پاکستان نے کابل کے نقطہ نظر میں تبدیلی اس وقت محسوس کی جب مارچ کے تیسرے ہفتے میں خصوصی ایلچی برائے افغانستان محمد صادق خان کی قیادت میں پاکستانی وفد نے کابل کا دورہ کیا اور اس وفد کو کابل نے سرحد پار دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔بند کمرے میں ہونے والی بات چیت سے واقف ایک ذرائع نے بتایا کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار پاکستان نے محسوس کیا کہ طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے میں سنجیدہ ہے۔اس وقت اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی تھیں لیکن اب ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان نے اپنے ایسے شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے جنہوں نے یا تو ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی یا گروپ کا حصہ بننے کی منصوبہ بندی کی تھئ۔
ذرائع نے بتایا کہ افغان حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے اس کریک ڈاؤن کے دوران بہت سے ایسے افغانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا جو افغان شہریوں کو ٹی ٹی پی کے لیے بھرتی کر رہے تھے ذرائع نے بتایا پاکستان کے بار بار کے احتجاج کے بعد آخر کار افغان طالبان حرکت میں آگئے اور اپنے شہریوں کیخلاف کارروائی کی جس کی وجہ سے نہ صرف کے پی میں خودکش حملوں میں نمایاں کمی آئی بلکہ اسحاق ڈار کے 19 اپریل کو دورہ کابل کی راہ بھی ہموار ہوئی۔تین سالوں میں کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا افغان دارالحکومت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس دورے میں کابل کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی جس کے بعد پاکستان نے افغان درآمد کنندگان کے لیے بینک ضمانتوں کی شرط کو ختم کیا اور افغان تجارت پر سے کچھ پابندیاں ہٹا دیں۔طالبان حکومت نے پاکستان کا اعتماد اس وقت بھی جیتا جب اس نے کچھ افغان شہریوں کو پکڑ لیا جنہوں نے پہلگام حملے کے فوراً بعد پاکستان میں دراندازی کی کوشش کرنے والے 70 سے زیادہ دہشت گردوں کو سہولت فراہم کی تھی۔
پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی ترقی شیخ چلی کا خواب کیوں ہے ؟
بعد ازاں پاک بھارت جنگ کے دوران افغانستان سے کشیدگی میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب یہ خبریں وائرل ہوئیں کہ بعض افغان حکومتی ذمہ داران مودی سرکار سے خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں تاہم اب افغان وزیر خارجہ نے اسی خبروں پراپیگنڈہ قرار دے دیا ہے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے موقف اپنایا کہ جن لوگوں نے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے پاک افغان تعلقات خراب کرنے کی سازش رچائی ہے ان میں اکثریت کا تعلق سابق افغان حکومت کے اہلکاروں سے ہے تاکہ وہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو خراب کر کے اس کشمکش سے فائدہ اٹھاسکیں۔ سابق افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے سربراہ امراللہ صالح اس کے پیچھے تھے اور انہوں نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کی سرپرستی کی۔ جبکہ کچھ افغان حکومت سے وابستہ افراد بھی اس کی زد میں آئے۔ تاہم افغان حکومت پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہے۔