کیا افغان طالبان حکومت BLA کے دہشتگردوں کے خلاف ایکشن لے گی ؟

اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان نے افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں میں ملوث بلوچستان لبریشن آرمی اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے شرپسندوں کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ جس کے بعد افغانستان کی دعوت پر پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ دورہ کابل کو موجودہ علاقائی صورتحال، دہشتگردی کے سدباب اور پاک افغان تناؤ کے خاتمہ کے ضمن میں اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق اس حوالے سے گزشتہ کچھ عرصے سے دوطرفہ کوششیں جاری تھیں جن میں اس امر کو بنیاد بنایا جا رہا تھا کہ دونوں ممالک کی ترقی کے عمل کیلئے امن و استحکام ناگزیر ہے ۔ پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین دہشتگردانہ کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے کے واضح ثبوت سامنے لانے کے بعد اب پہلی بار افغان طا لبان نے پاکستان کو پہلے مرحلے میں بلوچستان لبریشن آرمی سے وابستہ شرپسندوں کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ سینیئر صحافی مزمل سہروردی کا دعویٰ ہے کہ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ افغانستان میں بی ایل اے کے دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے پر حتمی بات چیت ہونے جا رہی ہے۔
مزمل سہروردی نے بتایا کہ کابل میں پچھلے کچھ عرصے سے حقانی گروپ اور قندھاری گروپ میں اقتدار کی لڑائی جاری تھی۔ قندھاریوں کا یہ خیال تھا کہ اس محلاتی جنگ میں پاکستان حقانیوں کے ساتھ ہوگا کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ طالبان کے ساتھ حقانیوں کے ذریعے بات کی ہے لیکن پاکستان نے اس بار یہ پالیسی تبدیل کرتے ہوئے اس لڑائی میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔”پاکستان نے کہا کہ ہمیں آپ دونوں سے گلے ہیں۔ ہمارے ملک میں دہشتگردی ہو رہی ہے اور ہم قندھاریوں اور حقانیوں دونوں کو اس کا برابر ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اسی لئے فوج نے اس لڑائی میں فریق نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ نتیجتاً حقانی اس جنگ میں کافی کمزور ہو چکے ہیں اور قندھاری گروپ غالب آ چکا ہے جس کے بعد ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزمل سہروردی نے بتایا کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس حوالے سے معاملات مختلف مراحل میں طے پائے ہیں۔ "جب پاکستان اور افغانستان میں تعلقات خراب ہوئے تو پاکستان نے بارڈر بند کیے، سمگلنگ بند کروائی، افغانوں کو واپس بھیجنا شروع کیا تو جواباً افغانستان نے پاکستان کو کوئلہ برآمد کرنے پر 54 فیصد ٹیکس لگا دیا۔ اسی لئے اسحاق ڈار کے دورۂ افغانستان میں یہ ٹیکس جنگ اور ٹیرف جنگ ختم ہو جائے گی۔”سینیئر صحافی کے مطابق افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ہم دہشتگردی کے خلاف اس جنگ کو دو حصوں میں دیکھتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کے بلوچ علیحدگی پسندوں سے متعلق گلے شکوے ہیں، وہ افغان طالبان فوراً ایڈریس کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یاد رہے کہ جعفر ایکسپریس حملے میں ملوث دہشتگردوں سے متعلق اطلاعات تھیں کہ ان کا ماسٹر مائنڈ افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب نوروز کے علاقے میں موجود تھا اور وہیں سے اس حملے کو کوآرڈینیٹ کر رہا تھا۔ نوروز پر افغان طالبان کی گرفت بہت مضبوط نہیں ہے۔ تاہم، افغان طالبان نے پیشکش کی ہے کہ اگر آپ انٹیلیجنس فراہم کریں تو ہم وہاں سے بندے پکڑ کر آپ کو دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف افغانستان میں کریک ڈاؤن کرنے کے لئے تیار ہیں۔
البتہ تحریکِ طالبان پاکستان کے حوالے سے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اسے اگلے مرحلے کے لئے رکھ چھوڑنا چاہتے ہیں۔ تاہم افغان طالبان نے یہ یقین دہانی ضرور کروائی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کو پاکستان میں کارروائیاں نہ کرنے بارے دباو ضرور ڈالیں گے،اسی لئے آج کل ٹی ٹی پی کی پاکستان میں کی جانے والی دہشتگردانہ کارروائیوں میں کمی بھی آئی ہے۔
عمران خان کے ساتھی انہیں جیل سے باہر کیوں نہیں نکلنے دے رہے؟
دوسری جانب سینئر صحافی سلمان غنی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری سے پہلے چین کے بعد اب روس نے بھی افغان طالبان کو اپنے ہاں دہشتگردوں کی تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے ۔ خارجہ امور کے ماہرین کے مطابق مستقبل کی سیاست اور خصوصاً معیشت میں بڑی اہمیت معدنیات کو ملے گی ، بڑے ممالک اس حوالہ سے افغانستان کو ٹارگٹ کر رہے ہیں کیونکہ افغانستان کے حوالے سے عام تاثر ہے کہ افغانستان بھی معدنیات سے مالا مال ہے ، وہ اس تناظر میں افغانستان سے تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ تاہم جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو پاکستان وہ ملک ہے جس کا افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے قیام میں اہم کردار رہا،پاکستان کا مقصد اس حوالے سے خطے میں امن و استحکام کے ساتھ سی پیک کا موثر کردار تھا تاکہ افغانستان میں امن کے قیام کے بعد علاقائی محاذ پر پاکستان کا بڑا کردار سامنے آئے ،خصوصاً معاشی حوالہ سے پاکستان کی ایشیائی ممالک تک دسترس قائم ہو لیکن دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کی بڑی وجہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات رہے جن کی تحقیقات کے ڈانڈے افغان سرزمین تک جاتے نظر آتے تھے ۔ سلمان غنی کے مطابق پاکستان بھی افغانستان سے پرامن تعلقات کا خواہشمند ہے کیونکہ پا کستان یہ سمجھتا ہے کہ اسے اپنی علاقائی اہمیت قائم رکھنے کے لئے افغانستان میں امن کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ جب تک افغانستان میں امن اور افغان انتظامیہ اپنی رٹ بحال نہیں کرتی پاکستان میں دہشتگردی کی جڑیں کاٹنا مشکل ہوگا لہٰذا پاکستانی وزیر خارجہ اسحق ڈار کے دورہ کابل کو خطہ میں امن کے ساتھ وسیع تر تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کیونکہ چین، امریکا اور روس کی جانب سے افغان انتظامیہ سے تعلقات کار کی بحالی کا سلسلہ یہ ظاہر کرتا نظر آ رہا ہے کہ ان کے بھی افغانستان سے مفادات وابستہ ہیں۔