ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ سوم)

تحریر : وسعت اللہ خان
بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس
(گنی بساؤ کے صدر کیپٹن ابراہیم ترورے کی سوشل میڈیا وائرل تقریر کا آخری حصہ )۔
پیارے افریقیو،
خود کفالت کا مطلب مغرب کی نقالی ہرگز نہیں۔خودکفالت کے سفر میں ہم سے غلطیاں بھی ہوں گی ، ہم لڑکھڑائیں گے بھی۔مگر وہ ہماری اپنی غلطیاں ہوں گی۔انھی سے ہمیں سیکھنے کا موقع ملے گا۔کوئی نجات دھندہ نہیں آئے گا۔نجات دھندہ یہیں موجود ہے اور وہ ہم ہیں۔لہٰذا لاحاصل انتظار اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔ صرف باتوں اور دعوؤں سے کچھ نہیں ہوتا۔ہمیں آج ہی سے اپنے ہاتھ مٹی سے آلودہ کرنے ہوں گے۔قلم کی روشنائی بھلے کتابوں پر گرتی ہے تو گرنے دو۔
اے عام افریقیو تم بے بس نہیں ۔بس تمہیں اب تک یہ جتایا گیا کہ طاقتور وہ ہے جو سوٹ پہن کر مائیکروفون لیے کھڑا ہوتا ہے اور مستقبل کا فیصلہ دور کہیں عالیشان عمارات میں بیٹھنے والے ہی کرتے ہیں۔مگر تم جان لو کہ اختیار کا سفر اوپر سے نیچے نہیں بلکہ نیچے سے اوپر ہوتا ہے۔
افریقہ کی اصل طاقت اس کسان کے پاس ہے جو علی الصبح بیدار ہوتا ہے۔اس ماں کے پاس ہے جو اپنی خواہشات اپنے بچے کی ضروریات پر قربان کر دیتی ہے۔طاقتور وہ لڑکا ہے جو بھوکا ہونے کے باوجود چوری نہیں کرتا۔طاقت اس بچی کے پاس ہے جو روزانہ پانچ میل چل کے اسکول جاتی ہے۔ٹھیلے والا ، مکینک ، نرس ، ماشکی ، استاد۔ یہ ہیں ہماری طاقت۔افریقہ انھی کے سہارے تو رواں ہے۔
خود کو عام سے لوگ سمجھنے والے یہی انسان تو دراصل نئے افریقہ کے معمار ہیں۔مگر انھیں یہی بتایا گیا ہے کہ تم بس تالی بجاؤ جب تمہاری طرف کوئی روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے پھینکے۔صاحبانِ اختیار سے پوچھنے کے بجائے ان سے ڈرو۔اس وقت بھی سوال نہ کرو جب صاحبان اختیار تمہیں بنیادی تحفظ نہ دے سکیں۔ہمیں اس منحوس مروت اور اس نادیدہ دیوار سے جان چھڑانا ہو گی جو عوام کو لیڈر سے اور اشرافیہ کو عوامی رول ماڈلز سے الگ رکھتی ہے۔اصل قیادت حکمران نہیں خدمت گذار ہوتی ہے۔کوئی بھی نظام بغیر احتساب کے فسطائیت کے سوا کچھ نہیں۔
نظام آپ کو بے بس کیوں رکھنا چاہتا ہے ؟ کیونکہ بین الاقوامی ادارے آپ کی خاموشی کے سبب ہی آپ کی ریاستوں کو کنٹرول کر پاتے ہیں۔ان کی خوشحالی آپ کی مزاحمت کی شکست میں پنہاں ہے۔ آپ صرف جسم و جان کا رشتہ نبھانے میں ہی اس قدر الجھا دیے جاتے ہیں کہ آپ متحد نہ ہو سکیں۔اسی لیے آپ کو بتایا جاتا ہے کہ سیاست ایک گندہ کھیل ہے۔یہ آپ کے لیے نہیں۔ اس میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
مگر یہ جان لیں کہ ہر گرانی ، ہر ناکارہ اسپتال، ہر غصب زمین ۔یہ سب سیاسی فیصلوں کی پیداوار ہیں۔لہٰذا فیصلہ سازی کے عمل سے خود کو لاتعلق رکھنا اور سوال نہ کرنا دراصل اپنے استحصالی کو مسلسل سہولت فراہم کرنا ہے۔
جب لوگ جاگتے ہیں تب توازن بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔جب نوجوان خاموش رہنے سے انکار کر دیں ، جب مائیں اختیار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولنے لگیں ، جب بوڑھی آوازوں میں لرزش نہ رہے۔تب کوئی آئی ایم ایف ، کوئی آمر ، کوئی کٹھ پتلی حکومت نہیں ٹک سکتے۔
ضروری نہیں کہ انقلاب ہمیشہ دبنگ انداز میں زمین ہلاتا ہوا آئے۔بعض اوقات یہ دبے پاؤں بھی آ جاتا ہے۔مگر اس وقت جب ہر نوجوان اپنا ووٹ بنوائے۔جب کارکن عورتیں رشوت دینے سے انکار کر دیں۔جب ہمسائے سرکار کا انتظار کیے بغیر اپنی گلی کی خود ہی مرمت کر لیں۔
آپ کا فرض صرف مزاحمت کرنا ہی نہیں بلکہ اپنی مدد آپ کرنا بھی ہے۔آپ صرف تماشائی نہیں تماشے کا حصہ بھی ہیں۔اس کے لیے کسی کی اجازت درکار نہیں۔اپنی قسمت آپ خود ہی بدل سکتے ہیں۔کوئی دوسرا صرف آپ کی قسمت کے دام کھرے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اختیار تھالی میں نہیں ملتا۔اسے کمانا پڑتا ہے۔کیا آپ خود کو اس قابل بنا سکتے ہیں ؟ یاد رکھئے دنیا ہماری طاقت سے زیادہ ہمارے جاگنے سے خوفزدہ ہے۔
جاگنے سے روکنے کے لیے ہمیں مسلسل بتایا گیا کہ ہم غیر مہذب ہیں ، پسماندگی ہماری رگوں میں ہے اور چلنے کے لیے بھی کسی کے سہارے اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔یہ جھوٹ اتنے تواتر سے بولا گیا کہ ہم نے بھی اسے سچ جان کے یقین کر لیا اور جھکتے چلے گئے۔
ہمیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ انسانی تہذیب نے افریقہ میں ہی جنم لیا تھا۔سب سے پہلے ہمارے ہی بزرگوں نے ستاروں کو قطب نما کے طور پر استعمال کیا۔انھی سے علمِ فلکیات ، روحانیات ، فنِ زراعت اور جڑی بوٹیوں کے طبی استعمال کا آغاز ہوا۔ہم بھول گئے کہ آئی ایم ایف سے بہت پہلے ٹمبکٹو کا تہذیبی مرکز بھی تھا۔نوآبادیاتی دور سے پہلے یہاں شاندار سلطنتیں تھیں جن کے پاس باقاعدہ افواج بھی تھیں مگر یونیورسٹیاں بھی تھیں۔تجارتی راستے بھی آباد تھے۔قانون سازی بھی ہوتی تھی۔ہم غریب نہیں تھے۔ہمیں غریب بنایا گیا۔
لہٰذا جب آپ تعلیم حاصل کر کے کچھ بڑا سوچنا یا کرنا چاہتے ہو تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ جب آپ منظم ہونے کی کوشش کرتے ہو تو وہ کانپنے لگتے ہیں۔جب آپ متحد ہونے کا سوچتے ہو تو وہ سازشیں شروع کر دیتے ہیں۔انھیں آپ کے غصے سے نہیں بلکہ باشعور ہونے کے خدشے سے بے چینی ہے۔وہ آپ کے احتجاج سے نہیں بلکہ زندگی کی مقصدیت کی تلاش سے پریشان ہیں۔
جب لوگ خودشناس ہو جاتے ہیں تو ان پر کسی جھوٹ کا جادو نہیں چل سکتا۔مگر آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تسلط کمزور ہونے لگتا ہے تو مسلط طاقت پوری قوت سے آخری وار ضرور کرتی ہے۔آنکھیں اور دماغ مستعد ہوں تب ہی اس آخری حملے کو پسپا کیا جا سکتا ہے۔اگر وہ آپ سے پریشان ہیں کہ آپ ان کی اجازت کے بغیر کیوں اٹھنے کی ہمت کر رہے ہیں تو ان کی پریشانی بجا ہے۔غاصب زنجیریں ٹوٹنے کی آواز آخر کیوں پسند کرے۔
ہاں ہمارا صدیوں استحصال ہوا ، ہمارے مصائب سے تجوریاں بھری گئیں ، ہماری خاموشی کو صبر کے بجائے کمزوری سمجھا گیا۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے زخم دکھا کر ہمدردیاں بٹورنے میں ہی لگے رہیں۔ہمیں تشدد ، انتقام اور دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے جال میں نہیں پھنسنا۔ورنہ جتنا سفر درپیش ہے اس سے دوگنا کرنا پڑے گا۔خدا ہمارا مددگار ہو۔