پارٹی قیادت کے بعد کارکنان نے بھی عمران خان کو فارغ کر دیا

پی ٹی آئی قیادت کے بعد پارٹی کارکنان نے بھی عمران خان کی احتجاجی پالیسی سے منہ پھیر لیا۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ’’حقیقی آزادی‘‘ کے نعرے کے ساتھ 14 اگست کی احتجاجی کال کی ناکامی اس بات کی غماز ہے کہ اب یوتھیے کارکنان بھی پارٹی قیادت سے بددل ہو چکے ہیں اس لئے وہ عمران خان کے احکامات پر بھی سڑکوں پر نکلنے کو تیار نہیں۔
مبصرین کے مطابق پاکستان کی 77ویں یومِ آزادی پر تحریک انصاف کے لیے ایک سنہری موقع تھا کہ وہ اپنی سیاسی موجودگی کا بھرپور مظاہرہ کرتی، عوامی تائید کو منواتی اور اپنے بیانیے کو نئی توانائی دیتی۔ مگر حقائق یہ ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایات کے باوجود احتجاجی کال نہ عوامی جوش جگا سکی، نہ ہی میڈیا کی توجہ حاصل کر سکی۔ حقیقت میں یہ کال تحریک انصاف کی حالیہ سیاسی ناکامیوں کی فہرست میں ایک اور سنگین اضافہ ثابت ہوا۔
خیال رہے کہ 5اگست کے احتجاج کی ناکامی کے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کارکنان اور عوام کو 14 اگست کو سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دی تھی، لیکن پارٹی قیادت کے باہمی اختلافات اور عوامی عدم دلچسپی کی وجہ سے ملک بھر میں کوئی بھی بڑا اجتماع یا ریلی دیکھنے کو نہ ملی۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی تحریک انصاف کی سرگرمیوں کی کوریج نہ ہونے کے برابر رہی۔ تاہم پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اس تاثر کو رد کرتے دکھائی دئیے ان کا کہنا تھا کہ 14اگست کو احتجاج نہیں ’’حقیقی آزادی کا جشن‘‘ تھا، جس میں عمران خان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی گئی۔
ایک طرف بیرسٹر گوہر اسے محض ’’جشن‘‘ قرار دے رہے تھے، تو دوسری جانب پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے دعویٰ کیا کہ 14 اگست کو ’’عوام کا سمندر‘‘ سڑکوں پر نکلا، جس نے ’’فاشزم‘‘ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ تاہم، جب ان کے بیان کی مزید وضاحت کے لیے کہا گیا تو وہ غائب ہو گئےمبصرین کے مطابق پارٹی رہنماؤں میں یہ تضاد قیادت کے درمیان ہم آہنگی کی شدید کمی اور بیانیے کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کسی بھی تحریک کے لیے قیادت کا واضح اور متحد پیغام بنیادی شرط ہوتا ہے، اور تحریک انصاف اس امتحان میں ناکام نظر آتی ہے۔۔
مبصرین کے مطابق 14 اگست تحریک انصاف کے لیے اپنی سیاسی حیثیت کو منوانے کا ایک تاریخی موقع تھا، مگر ناقص حکمت عملی، متضاد بیانیے، اور عوامی شمولیت کی کمی نے اسے مایوس کن دن میں بدل دی ہے۔ تحریک انصاف اب دو راہوں پر کھڑی ہے: یا تو مذاکرات کے ذریعے اپنی ساکھ بحال کرے، یا داخلی خلفشار اور سیاسی ناکامی کی کھائی میں مزید گرتی چلی جائے۔
پنجاب حکومت کا احتجاج کرنے والوں پر کتے چھوڑنے کا فیصلہ
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت نے تحریک انصاف کو کڑی شرائط کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کر رکھی ہے، حکام نے تحریک انصاف پر واضح کر دیا ہے کہ اگر وہ نو مئی کے واقعات پر ندامت اور معافی، نظام کے خلاف مزاحمت میں کمی، اور قومی مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تو مذکراتی عمل آگے بڑھایا جا سکتا ہے
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف نے ان شرائط کو تسلیم نہ کیا تو مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا جس کے بعد پارٹی مزید سیاسی تنہائی کا شکار ہو جائے گی۔ مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر مذاکرات کے مخالف اور حامی دونوں دھڑے سرگرم ہیں۔ مخالف گروپ مذاکرات کو ’’کمزوری‘‘ قرار دیتا ہے اور اس کے ناکام بنانے کے لیے ’’سیاسی ہتھیار‘‘ استعمال کرنے پر بضد دکھائی دیتا ہے جبکہ مذاکرات کا حامی دھڑا بات چیت کو ہی مسائل کا حل گردانتا ہے اس کے مطابق صرف مذاکرات کے ذریعے ہی پارٹی کو بند گلی سے باہر نکالا جا سکتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی قیادت نے اندرونی اختلافات ختم نہ کیے تو پارٹی نہ صرف مذاکرات سے محروم ہو گی بلکہ اپنی تنظیمی طاقت بھی کھو دے گی۔
