ایئر سپیس بندش: پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کو بھاری مالی نقصان

انڈیا اور پاکستان دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کے مسافر طیاروں کے لیے ایئر سپیس کی بندش سے پاکستان کو جزوی جب کہ بھارت کو بھاری مالی نقصان ہو رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پورے ہفتے میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی صرف 6 پروازیں بھارتی فضائی حدود سے گزرتی تھیں جبکہ پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے والی بھارتی پروازیں کی تعداد 300 سے زائد تھی۔
ایوی ایشن ماہرین کے مطابق انڈین فضائی حدود استعمال کرنے والی واحد ائیر لائن پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ہے جس کی پورے ہفتے میں مجموعی طور پر 3 پروازیں کوالالمپور یعنی ملائیشیا جاتی ہیں اور 3 پروازیں واپس پاکستان آتی ہیں۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کی کوئی فلائٹ انڈیا کی فضائی حدود استعمال نہیں کرتی۔ پی آئی اے کے علاوہ کسی دوسری پاکستانی ائیر لائنز کا کوئی ایسا فلائٹ آپریشن نہیں، جو انڈیا کی فضائی حدود استعمال کر کے مشرق بعید کا سفر کرے۔ ایوی ایشن ماہرین کے مطابق انڈین فضائی حدود کی پاکستانی پروازوں کے لیے بندش سے پاکستان کا کوئی خاص مالی خسارہ نہیں ہو گا۔
تاہم پاکستانی ائیر سپیس کی بندش سے انڈین پروازوں کو کافی بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے ہفتے میں 600 کے لگ بھگ انڈین ائیر لائنز کی پروازیں مشرق وسطیٰ، یورپ، افریقہ اور شمالی امریکہ جاتی تھیں۔ اب متبادل روٹس استعمال کرنے سے ان کی لاگت اور کرایے بڑھ گئے ہیں۔ پی آئی اے ترجمان نے بتایا کہ کوالالمپور کے لیے پی آئی اے کی پرواز اب بھارت کی بجائے چین کے روٹ سے جائیں گی جس سے مسافت اور ایندھن کی لاگت بڑھ جائے گی اور پاکستان کو جزوی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ چین کے روٹ سے پی آئی اے کی پرواز کی مسافت اور لاگت بڑھنے سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوالالمپور جانے والے مسافر غیر ملکی ائیر لائنز سے سفر کریں۔
پاکستان ائیر پورٹ اتھارٹی کے ترجمان نے کہا کہ انڈین فضائی حدود بند ہونے سے پاکستان ائیر لائنز انڈسٹری کے لیے مالی خسارہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ انڈین فضائی حدود استعمال کرنے والی پاکستانی پروازوں کا حجم بہت کم ہے۔ یاد رہے کہ تمام ایئر لائنز کسی بھی ملک کے اوپر سے پرواز کرنے کے عوض ایک فیس ادا کرتی ہیں جسے ’اوور فلائٹ فیس‘ کہا جاتا ہے۔ جیسے کسی بھی ملک کو اپنی زمین کے حقوق حاصل ہوتے ہیں ویسے ہی انھیں اپنی فضائی حدود پر بھی مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ممالک اپنی اپنی فضائی حدود غیر ملکی ایئر لائنز کو ’کرائے پر‘ دیتے ہیں اور وہ ایئر لائنز اس کے ذریعے پرواز کر سکتی ہیں۔ کچھ ممالک ہوائی ٹریفک کنٹرول کی سروسز بھی فراہم کرتے ہیں۔ فیس کا کچھ حصہ ان سروسز کے لیے بھی ہوتا ہے۔
دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کے لیے بھی ایئرلائنز سے موصول ہونے والا یہ فضائی کرایہ آمدن کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان غیر ملکی طیاروں کے ٹیک آف کے وقت وزن اور کلومیٹرز میں پرواز کے فاصلے کے اعتبار سے اوورفلائٹ فیس کا تعین کرتا ہے۔بعض اوقات ایئر لائنز اس نوعیت کی فیس سے بچنے کے لیے لمبے روٹس بھی اپناتی ہیں۔ لیکن کسی فضائی حدود سے بچنا اتنا آسان بھی نہیں کیونکہ یہ کسی ملک کے سائز سے بھی زیادہ بڑی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی فضائی حدود فلپائن تک پھیلی ہوئی ہے لیکن زمین کے اوپر پرواز کرنے کے مقابلے سمندر پر پرواز کرنے سے کم خرچ آتا ہے۔ اسی طرح انڈیا سے وسطی و مغربی ایشیا، یورپ، برطانیہ اور امریکہ جانے والی پروازیں بحیرۂ عرب یا وسطی ایشیا کے طویل راستے کی بجائے عموماً پاکستان کی فضائی حدود کا استعمال کرتی ہیں۔ جب انڈین ایئرلائنز اس کا متبادل روٹ استعمال کرتی ہیں تو ان کے اخراجات جیسے ایندھن پر اٹھنے والے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے فضائی حدود بند کرنے کے بعد انڈیا سے مغربی روٹ استعمال کرنے والی سب سے بڑی ایئرلائن ایئر انڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس اقدام سے ’شمالی امریکہ، برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ جانے یا وہاں سے آنے والی پروازوں کو متبادل طویل روٹ استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ ایئر انڈیا کا کہنا ہے کہ فضائی حدود کی غیر متوقع بندش ’ہمارے کنٹرول میں نہیں‘ اور ’صارفین کو پہنچنے والی اس تکلیف پر ایئر انڈیا کو افسوس ہے۔‘ بھارتی پروازوں کے لیے پاکستان ایئر سپیس کی بندش کے بعد سے سب سے زیادہ ایئر انڈیا اور دلی ایئرپورٹ متاثر ہوئے ہیں۔ دلی سے ایئر انڈیا کی یورپ اور شمالی امریکہ کے لیے ہفتہ وار 134 پروازیں اڑان بھرتی ہیں جو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں۔ دلی ایئرپورٹ سے سعودی، متحدہ عرب امارات، عمان، کویت، قطر اور بحرین کے لیے ہفتہ وار 144 پروازیں اڑان بھرتی ہیں اور یہ بھی پاکستانی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں۔
پاکستانی بوڑھےمیراج طیارےاب بھی انڈین ائیر فورس پر بھاری کیوں؟
یعنی ایک ہفتے میں دلی ایئرپورٹ پر قریب 300 پروازیں متاثر ہوں گی جس میں اخراجات میں اضافے کے علاوہ پروازوں کی آمد اور روانگی کے اوقات میں تبدیلی شامل ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان نے اپنی فضائی حدود صرف انڈین طیاروں کے لیے بند کی ہے، یعنی غیر ملکی ایئرلائنز اب بھی پاکستانی فضائی حدود استعمال کر سکتی ہیں۔