صیہونی میڈیا سے مغلوب ہوئی امریکی اشرافیہ

تحریر : نصرت جاوید
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت
انسان ہونے کی وجہ سے بے شمار خطائوں کا مرتکب ہوا ہوں۔ مذہبی جذبات بھڑکانے سے مگر ہمیشہ پرہیز کیا۔ فساد خلق سے واقعتا خوف آتا ہے۔ اسی باعث بدھ کی صبح چھپے کالم میں امریکی صدر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کا ذکر کرتے ہوئے جان بوجھ کر ان وجوہات کو نظرانداز کردیا جو امریکی تاریخ میں پہلی بار کسی مسلمان عالم دین کو بھی اس تقریب میں دعائیہ کلمات ادا کرنے کا موقع فراہم کرسکتی تھیں۔ محض یہ لکھنے پر اکتفا کیا کہ مسلمانوں کے جس دینی رہ نما کو اس ضمن میں دعوت دی گئی تھی وہ مذکورہ تقریب میں شریک نہ ہوپائے۔
بدھ کی صبح کالم چھپ گیا تو میرے نیند سے اٹھنے سے قبل ہی قارئین کی ایک موثر تعداد کے پیغامات واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے آچکے تھے۔ وہ جاننا چاہ رہ تھے کہ کونسے مسلمان عالم دین کو امریکی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور وہ کن وجوہات کی بنا پر وہاں تشریف نہ لائے۔ قارئین کی شکایت اب تفصیلات بیان کرنے مجبور کررہی ہے۔
تقریب حلف برداری سے متعلق تفصیلات بیان کرنے سے قبل آپ کو پس منظر کے طورپر بیان کرنا ہوگا کہ سمندری تجارت پر عربوں کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی۔ اسی باعث برصغیر پاک وہند میں اسلام سب سے پہلے ملیالم کے ساحلی علاقوں میں پھیلا تھا۔ ایسا ہی واقعہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے ساتھ بھی ہوا۔ اندلس میں خلافت کے زوال کے بعد سمندری راستوں کی بدولت نت نئی منڈیاں تلاش کرنے کی مہارت کی بدولت عرب النسل ’’ناخدا‘‘ پرتگال اور اسپین کے بحری بیڑوں میں کلیدی عہدوں پر متمکن رہے۔ انہوں نے لاطینی امریکہ اور افریقہ کے کئی ملکوں میں سامراجی تسلط کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ سمندری تجارت پر کامل مہارت کا سب سے زیادہ فائدہ لاطینی امریکہ کے تناظر میں شام اور لبنان کے تاجروں نے اٹھایا۔ ان میں سے بے تحاشہ لوگ وہاں جاکر آبادبھی ہوگئے۔ ان کی اکثریت دوکانداروں پر مشتمل ہے۔ لاطینی امریکہ کے مشہور زمانہ ناول نگار گبرائیل گارسیا مارکوئیز کے ناولوں کو غور سے پڑھیں تو ان میں شامی دوکانداروں کااکثر ذکر ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے بارے میں وہاں کے مقامی لوگوں میں وہی جذبات پائے جاتے ہیں جو ہمارے ہاں کبھی ہندومذہب سے تعلق رکھنے والے ’’بنیوں‘‘ کے بارے میں پائے جاتے تھے جو دوکاندار تھے۔ اشیائے صرف کو قرض پر دیتے تو اصل قیمت سے کہیں زیادہ سود وصول کرتے۔
تاریخ میں الجھنے سے گریز کرتے ہوئے اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہوئے اطلاع آپ کو یہ دینا ہے کہ امریکہ میں شکاگو کے قریب ایک چھوٹا شہر ہے۔ نام ہے اس کا ڈئربورن(Dearborn)۔ 2023ء میں ہوئی مردم شماری کی بدولت اس شہر کو امریکہ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا شہر مانا جاتا ہے۔ اس کی آبادی ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے اور اس کا 55فی صد خود کوعرب سے آئے مسلمان پکارتا ہے۔یہاں آباد ’’عربوں‘‘ کی اکثریت اگرچہ لبنان سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ شیعہ مسلک کے پیروکار ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں عراق پر صدام حسین بغاوت کے ذریعے برسراقتدار آیا تو اس کے کئی مخالف بھی اپنے ملک سے فرار ہوکر اس شہر میں پناہ گزین ہوگئے۔ صدام حسین کے خوف سے یہاں پناہ گزین ہونے والوں میں ہشام الحسینی بھی شامل تھے۔ اپنی زندگی کو انہوں نے دینی تعلیم کے لئے وقف کردیا۔ ان کی لگن کی وجہ سے ڈئربورن ہی میں ’’کربلا اسلامک ایجوکیشن سینٹر‘‘ قائم ہوا جو امریکہ میں اپنی تعلیم کا بڑا مرکز شمار ہوتا ہے۔ یہ بات بھی مگر یاد رکھنا ہوگی کہ ڈئربورن ہی میں امریکہ کی زمین پر پہلی مسجد 1945ء میں قائم ہوئی تھی۔
عرب مسلمانوں کے مرکز ٹھہرائے اس شہر میں اسرائیل کے غزہ پر حملے کے سبب بائیڈن اور اس کی جماعت کے خلاف جذبات بہت شدت سے ابھرے۔ ان کے جذبات کو بھانپتے ہوئے کائیاں ٹرمپ نے یہاں کے نمایاں افراد سے رابطے استوار کئے اور اپنی صدارتی مہم کے دوران ان پر گہری توجہ مرکوز رکھی۔ یہاں آباد مسلمان بائیڈن کو ’’اسرائیل نواز ہونے کی وجہ سے ’’سزا‘‘ دینا چاہ رہے تھے۔ غصے میں ٹرمپ کو صدارتی انتخاب کے دوران بھاری بھر کم تعداد میں ووٹ دئے۔
اپنے تئیں مسلمانوں کے ’’دل جیت‘‘ لینے کی وجہ سے ٹرمپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی تقریب حلف برداری کے دوران دعائیہ کلمات کی ادائیگی کے لئے ’’کربلا سینٹر‘‘کے امام ہشام الحسینی کو بھی مدعو کرے گا۔ ان کا نام تقریب حلف برداری کے لئے جاری ہوئے دعوت نامے میں بھی چھاپ دیا گیا۔ میں نے اس دعوت نامے کی نقل انٹرنیٹ پر دیکھی تو اپنے تئیں یہ فرض کرلیا کہ ا مام الحسینی کا تعلق غالباََ ایران سے ہوگا۔ ان سے اپنی تقریب حلف برداری میں دعائیہ کلمات ادا کرواتے ہوئے ٹرمپ شاید ایران کو کوئی پیغام دینا چاہ رہا ہوگا۔
امام الحسینی کا نام مگر دعوت نامے پر چھپ گیا تو صہیونی حلقوں میں تھرتھلی مچ گئی۔ ان کے ترجمان اخبار کے رپورٹر امام ہشام الحسینی کو ’’بدنام‘‘ کرنے کا مواد ڈھونڈنے میں مصروف ہوگئے۔ خوش قسمتی سے انہیں کوئی مالی یا جنسی نوعیت کا سکینڈل نہ مل پایا۔ بہت کاوش کے بعد ٹرمپ کے پسندیدہ فوکس ٹی وی کو امام الحسینی کی جانب سے دیا محض ایک انٹرویو صہیونی نواز اخبار کے ہاتھ لگا۔ جس انٹرویو کو اچھالا گیا وہ 2007ء جی ہاں 2007ء میں دیا گیا تھا۔ اس کے دوران امام الحسینی سے پوچھا گیا کہ وہ ’’حزب اللہ‘‘ (نامی تنظیم) کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ امام صاحب نے نہایت مہارت سے جواب دیا کہ حزب کا مطلب سپاہ ہے اور ان کی دانست میں مسلمان ،عیسائی اور یہودی ’’حزب اللہ‘‘ ہی تو ہیں۔ اس کے سوا وہ کسی ’’حزب اللہ‘‘ سے آگاہ نہیں۔
اسی طرح
2007ء میں ادا ہوئے ان فقروں کو امریکہ کے تمام صہیونی نواز میڈیا نے بھرپور انداز میں دہراتے ہوئے کہانی یہ گھڑی کہ ٹرمپ اپنی حلف برداری کی تقریب میں ’’حزب اللہ‘‘ کے ایک حامی مسلمان عالم کو دعائیہ کلمات ادا کرنے کے لئے مدعو کررہا ہے۔ صہیونی پراپیگنڈے سے گھبراکر ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے لئے باقاعدہ جاری ہوچکا دعوت نامہ واپس لے لیا۔ اس کی جگہ نیا دعوت نامہ چھاپا گیا جس میں امام الحسینی کا نام موجود نہیں تھا۔ حلف برداری کی تقریب اب ہوچکی ہے۔ امریکہ سے کہیں دور بیٹھا میں فقط دعا ہی مانگ سکتا ہوں کہ غضب وطیش کے عالم میں بھی مسلمانوں کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بائیڈن ہویا ٹرمپ، امریکی اشرافیہ کا کوئی ایک نما ئندہ بھی صہیونی میڈیا کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں دکھاسکتا۔