بشری بی بی نے عاصم منیر کو ISI چیف کے عہدے سے کیوں ہٹوایا ؟

وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد عمران خان نے آئی ایس آئی چیف لیفٹنٹ جنرل عاصم منیر کو تب ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جب انہوں نے موصوف کو ان کی تیسری اہلیہ بشری بی بی کے خاندان کی کرپشن کے حوالے سے آگاہی دینے کی کوشش کی۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران خان نے یہ فیصلہ بشری بی بی کے ایما پر کیا۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں بتاتے ہیں کہ پہلی مرتبہ یہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کی توجہ خاتون اول بشریٰ بی بی کی کرپشن کی طرف مبذول کرائی تھی۔ وہ ان کے پاس ایک فولڈر لیکر پہنچے تھے جس میں پنکی پیرنی کی مبینہ کرپشن کی تفصیلات موجود تھیں۔ تاہم، عمران خان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے باجوہ سے کہا کہ ’’بشریٰ بی بی میری ریڈ لائن ہے، اس حوالے سے میں آئندہ کوئی بات نہیں سنوں گا۔‘‘

اس بات چیت سے آگاہ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ عمران خان نے فولڈر کے مواد کو یکطرفہ کہہ کر نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ اس کا برا بھی منایا ہے۔ جب جنرل باجوہ نے عمران خان کو بتایا کہ اس کرپشن میں بشریٰ بی بی کے ساتھ فرح گوگی، اس کے شوہر اور عثمان بزدار کا نام بھی آتا ہے تو عمران نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرائی کہ آج کے بعد بشریٰ بی بی کے خلاف ان کے ساتھ کوئی بات نہیں ہو گی۔ بعد ازاں، اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور موجودہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے عمران خان کو انہی الزامات کے حوالے سے بریفنگ دینے کی کوشش کی لیکن یہ بات عمران خان کو بہت بری لگی اور انہوں نے آئی ایس آئی چیف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔

فرحت اللہ بابر کی کتاب ‘دی زرداری پریزیڈنسی’ تنقید کی زد میں کیوں ؟

انصار عباسی بتاتے ہیں کہ عمران خان نے 24؍ گھنٹوں کے اندر ہی جنرل باجوہ کو فون کیا اور جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ذرائع کے مطابق، باجوہ نے عمران خان کو منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے اور عاصم منیر کو تبدیل کرنے پر ڈٹے رہے۔ اس دوران عمران خان نے اپنے دست راست جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنانے کی تجویز دی، حالانکہ اس عہدے کیلئے جو نام تجویز کردہ پینل میں بھیجے گئے تھے اُن میں فیض حمید کا نام سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔

انصار عباسی کے مطابق جب وزیر اعظم عمران خان عاصم منیر کو ہٹانے کیلئے اصرار کر رہے تھے، تب جنرل باجوہ نے انہیں مشورہ دیا کہ کم از کم احترام اور پروٹوکول کے اظہار کے طور پر سید عاصم منیر کو چائے کیلئے مدعو کیا جائے۔ لیکن عمران نے ایسا کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ ٹوئٹر پر عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں تصدیق کی ہے کہ انہوں نے جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ بعد ازاں، ثالثوں کے ذریعے جنرل عاصم نے بشریٰ بی بی سے رابطے کی کوشش کی لیکن خاتون اول نے اُن سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن عمران کا دعوی جھوٹ پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے چونکہ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ ثالث کون تھے۔

ویسے بھی یہ بیان عمران کے سابقہ بیانات سے بالکل مختلف ہے۔ مئی 2023 میں ٹیلی گراف میں شائع ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ جنرل عاصم منیر کو اس لیے برطرف کیا گیا تھا کہ انہوں نے بشریٰ بی بی اور ان کے قریبی حلقوں کی کرپشن کی تحقیقات کی کوشش کی تھی۔

Back to top button