’نصرت جاوید آفیشل‘ پر پابندی، تھینک یو انڈیا!

تحریر : نصرت جاوید

بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت

ہفتے کی دوپہر سے کمینہ دل خوشی محسوس کررہا ہے۔ کسی زمانے میں لطیفہ سنا تھا کہ کوئی صاحب کراچی کے ایک ریستوران میں گئے۔ وہ پرانے دنوں کا ایرانی ریستوران تھا جہاں خاص قسم کی مکس چائے ملا کرتی تھی۔ موصوف مگر قہوہ الگ، دودھ الگ والی چائے کے عادی تھے۔ بیرے نے اطلاع دی کہ ویسی چائے اس ریستوران میں میسر نہیں۔ بددلی سے اُٹھے تو میز پر رکھا گلاس ان کا ہاتھ لگنے سے زمین پر گرکے چکنا چورہوگیا۔ وہاں سے اٹھ کر باہر جانے لگے تو دروازے کے قریب پیسے وصول کرنے والے کائونٹر پر بیٹھے صاحب کو بیرے نے آوازلگاکر آگاہ کیا کہ ان صاحب نے ’کھایا پیا کچھ نہیں- گلاس توڑا-بارہ آنے‘۔ بغیر کچھ کھائے اور پیے گلاس مجھ سے بھی ٹوٹ گیا ہے۔ ’بارہ آنے‘ البتہ دینا نہیں پڑیں گے۔ اس کی وجہ سمجھانے کے لیے پسِ منظر بیان کرنا ہوگا۔
اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالتے ہی عمران حکومت نے جس پہلے ٹی وی اینکر کو اپنے ادارے پر مالی بوجھ ثابت کرواتے ہوئے فارغ کروایا وہ یہ خاکسار تھا۔ پیمرا کے لائسنس سے چلائی سکرینوں کے لیے میری شکل حرام قرارپائی تو کئی دوست مجبور کرنے لگے کہ میں اپنا یوٹیوب چینل شروع کردوں۔ ٹی وی کے دھندے سے بچپن ہی سے وابستگی شروع ہوگئی تھی۔ بچوں کے لیے خصوصی طورپر تیار کیے ڈراموں میں سب سے زیادہ بولنے والے شخص کا کردار مل جاتا۔ وجہ اس کی میری صورت نہیں نہ ہی فنِ اداکاری پر گرفت تھی۔ اس ضمن میں لاٹری محض اس وجہ سے نکل آئی کہ میری یادداشت بہت تیزتھی۔ سکرپٹ کو دو سے زیادہ بار ریہرسلوں کے دوران پڑھتے ہوئے اپنی ہی نہیں دیگر کرداروں کے لیے لکھی لائنیں بھی یاد ہوجاتیں۔ ان دنوں ڈرامے لاہور کے پی ٹی وی سٹوڈیو سے براہِ راست نشر ہوتے تھے۔ انھیں ریکارڈ کرنے کی سہولت موجود نہیں تھی۔ میں اپنی لائنیں فرفربول جاتا۔ فقط یہ خصوصیت ہی میری ’کامیابی‘ کا سبب نہیں تھی۔ براہِ راست نشریات کے دوران کوئی دوسرااداکار اپنی لائنیں بھولا نظر آتا تو میں نہایت خود اعتمادی سے اس کے لیے مختص ہوئے فقرے یہ کہتے ہوئے ادا کردیتا کہ ’میں جانتا ہوں …‘ یہ کہنے کے بعد اس کے لیے لکھے فقرے بول دیتا اور یوں ڈرامہ کسی خلل یا جھول کے بغیر بآسانی ختم ہوجاتا۔
ٹی وی سے ایسی آشنائی کے باوجود میں آج تک کسی بھی قسم کے کیمرے سے اچھی تصویر لینے کے قابل نہیں ہوپایا۔ دوست مگر اصرار کرتے رہے کہ بازار میں ایک چھڑی نما چیز مائیک سمیت سستے داموں مل جاتی ہے۔ میں اسے خرید لوں۔ موبائل فون کا کیمرہ اس چھڑی پر لگائوں اور بولنا شروع ہوجائوں۔ اس طرح اپنی مدد آپ کے تحت کسی کی محتاجی کے بغیر میرا اپنا یوٹیوب چینل قائم ہوجائے گا۔ چھڑی اور مائیک کے علاوہ میں نے دیگر کئی اوزار بھی خریدے جو نسبتاً بہتر ریکارڈنگ یقینی بناتے ہیں۔ ہاتھ رواں کرنے کے لیے طے یہ کیا کہ ہفتے کے پانچ روز یہ کالم لکھتا ہوں۔ وہ مگر ’نوائے وقت‘ کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ اپنی مدیر محترمہ رمیزہ نظامی سے اجازت مانگی کہ جب میرا لکھا کالم اخبار میں چھپ جائے تو اسے ’اپنے‘ یوٹیوب چینل کے لیے پڑھ دوں۔ تین کے قریب کالم پڑھ کر البتہ یوٹیوب پر لگائے تو بہت شرمسار ہوا۔ کیمرے پر میں نہایت ہونق اور حواس باختہ نظر آتا۔ کانوں کو ہاتھ لگایا تو میرے لیے یہ کالم ٹائپ کرنے والے نوجوان نے حوصلہ دیتے ہوئے اصرار کیا کہ میں اگر کیمرے پر ریکارڈ کرنے کے ازخود قابل نہیں تو چھپے ہوئے کالم کو اپنے فون پر لگے مائیک کا بٹن دباکر پڑھ دیا کروں۔ وہ میرے پڑھے کالم کوچند تصاویر لگاکر ’نصرت جاوید آفیشل‘ نامی یوٹیوب چینل پر ڈال دیا کرے گا۔ اس کی بات پر عمل کرنے کے چند ہی دن بعد مگر محض پڑھنے سے بھی جی اُکتاگیا۔ فیصلہ کیا کہ جب بھی یوٹیوب چلایا تو تکنیکی اعتبار سے کسی اور کی مدد کے ساتھ ہی چلائوں گا۔ اپنی کاہل طبیعت کو منطقی جواب فراہم کرنے کے بعد اپنا یوٹیوب چینل بنانے کا ارادہ بھلادیا۔
زندگی شاید یوں ہی گزرجاتی مگر اپریل 2022ء میں عمران حکومت قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ ہوگئی۔ وہ فارغ ہوئی تو میری شکل بھی پیمرا کے لائسنس کے بدولت چلائے چینلوں کے لیے ’حلال‘ ہوگئی۔ بطور مہمان کسی پروگرام میں شریک ہوتا تو اس میں بیان ہوئے میرے ’گراں قدر‘ خیالات میرے لیے یہ کالم ٹائپ کرنے والا نوجوان ’نصرت جاوید آفیشل‘ نامی یوٹیوب چینل پر لگادیتا۔ اس کے عوض مگر مجھے کوئی رقم نہیں ملتی کیونکہ میں کسی اور چینل کے میزبان کے ساتھ بیٹھا گفتگو کررہا ہوتا ہوں۔ سننے والوں کی مناسب تعداد مگر اس چینل کے ناظرین میں شامل ہوگئی۔

جنت تلواروں کے سائے تلے

محض ستائش اور تھوڑی شہرت کے لالچ میں یوٹیوب پر چلائے ’نصرت جاوید آفیشل‘ چینل کو مگر بھارتی حکومت کی شکایت پر بھارتی ناظرین کے لیے اب بند کردیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کی خفگی کا اصل سبب یہ ہے کہ اپریل 22کے دن پہل گام میں ہوئی دہشت گردی کی واردات کے بارے میں کسی بھی ٹی وی سکرین پر رونما ہونے کے بعد میں چند بنیادی سوالات اٹھانے کو مجبور ہوجاتا ہوں۔ مذکورہ حملہ ہوتے ہی بھارتی حکومت نے اس کا الزام براہِ راست پاکستان پر لگادیا تھا۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ پہل گام میں ہوئی دہشت گردی کا ’ماسٹر مائنڈ‘ پشاور میں بیٹھا ہے اور اپنے نام کے ساتھ ’قصوری‘ بھی لگاتا ہے۔ اپنے دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کے لیے بھارتی حکومت یاد دلاتی رہی کہ پہل گام واقعہ کی ذمہ داری ’محاذ برائے مزاحمت The Resistance Front‘ نامی تنظیم نے قبول کرلی ہے۔ یہ تنظیم بھارتی حکومت کی نگاہ میں پاکستان میں کالعدم ٹھہرائی ایک تنظیم کا ’جدید‘ ورژن ہے جو ’اسلامی‘ سنائی دیتے نام سے گھبراکر ’مزاحمت‘ جیسے الفاظ اپنی شناخت کے لیے استعمال کررہی ہے۔ 1984ء سے بھارت کی اندرونی سیاست پر نگاہ رکھنا میری پیشہ وارانہ مجبوری رہی ہے۔ عرصہ ہوا رپورٹنگ سے ریٹائر ہونے کے باوجودآج بھی بھارت کے اندرونی معاملات اور غیر ملکوں سے تعلقات پر نگاہ رکھناضرورت نہیں بلکہ عادت بن چکی ہے۔ اپنے تجربے کی بدولت کسی بھی قسم کی تحقیق کے بغیر میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوا کہ جس تنظیم کو پہل گام واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے وہ مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تسلیم کرتے والے آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد 2019ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کا بانی کوئی ’پاکستانی قصوری‘ نہیں بلکہ اندرون سرینگر کے ایک جانے پہچانے محلے میں جوان ہونے والا سجاد گل ہے۔ وہ 2000ء میں کشمیری عسکریت پسندوں کے لیے ’منی لانڈرنگ‘ کے الزام میں گرفتار ہوا تھا۔ 2006ء میں لیکن رہا کردیا گیا ۔ بھارت کے شہر بنگلور میں قائم ایک مشہور تعلیمی ادارے سے ایم بی اے کرنے والے سجاد گل کے بجائے محاذ برائے مزاحمت کے حوالے سے ایک ’پاکستانی قصوری‘ کا نام کیوں لیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی چند سوالات اٹھائے جن کا تشفی بخش جواب ابھی تک نہیں ملا۔ یہ سوالات اٹھانے کے باوجود ’نصرت جاوید آفیشل‘ نامی یوٹیوب چینل کو گزشتہ ہفتے کی صبح تک برداشت کرلیا گیا۔ وجہ غالباً یہ تھی کہ اس میں رکھا سودا ’اوریجنل‘ نہیں تھا۔ دوسرے چینلوں پر ہوئی گفتگو دہرائی جاتی تھی۔ گزرے ہفتے کا آغاز ہوتے ہی مگر میں یہ دعویٰ کرنا شروع ہوگیا کہ بھارتی حکومت کو مودی کے یار ٹرمپ سے پاکستان پر دھاوا بولنے کی ’اجازت‘ نہیں مل رہی۔ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک بھرپور جنگ کے امکانات لہٰذا معدوم سے معدوم ترہورہے ہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ امریکا کے حوالے سے میں بھارت کی سبکی کو جس انداز میں بیان کررہا تھا وہ نئی دلی میں بیٹھے کسی صاحب کو ناگوار محسوس ہوا۔ سرکاری طورپر یوٹیوب سے شکایت لگادی گئی۔ میں انگلی کٹائے بغیر محاورے کے ’شہیدوں‘ میں شامل ہوگیا۔ ’تھینک یو انڈیا‘ کے علاوہ اور کیا لکھوں؟

Check Also
Close
Back to top button