بیرسٹر گوہر کی COAS سے ملاقات: فائدے کی بجائے نقصان کیوں ہوا؟

بیرسٹر گوہر خان کی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد یوتھیوں نے ایک بار پھر امیدیں وابستہ کر لی ہیں کہ جلد یا بدیر عسکری قیادت انھیں دوبارہ گود لینے پر آمادہ ہو جائے گی تاہم مبصرین کے مطابق یوتھیوں کی یہ امید بر آنے کے امکانات معدوم ہیں۔ کیونکہ پی ٹی آئی قیادت پر واضح کیا جا چکا ہے کہ آئندہ چند سال تک موجودہ سسٹم ہی چلے گا۔ تاہم اگر پی ٹی آئی اسی حکومت کو تسلیم کر کے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کا وعدہ کرتی ہے تو اسے کچھ سیاسی ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے تاہم انتشاری پالیسیوں کا تسلسل پی ٹی آئی قیادت پر ریلیف کے تمام دروازے بند کر سکتا ہے۔ تاہم سیکورٹی ذرائع کے مطابق موجودہ عسکری قیادت پی ٹی آئی کی ماضی قریب کی کارستانیوں سے نہ صرف نالاں ہے بلکہ سیکورٹی صورتحال بارے منعقدہ اجلاس میں ہونے والی ملاقات کو سیاسی معنی دینے پر سخت برہم بھی ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان اور آرمی چیف کے مابین ہونے والی غیر سیاسی ملاقات کو سیاست کا رنگ دینے سے جہاں حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کو دھچکا لگا ہے وہیں اب پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور رابطے بھی منقطع ہو چکے ہیں۔
تاہم پی ٹی آئی قیادت یہ ڈھنڈورا پیٹتی دکھائی دے رہی ہے کہ اب پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے دروازے کھل چکے ہیں جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کے بڑا سیاسی اتحاد بنانے کی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں جس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کا اس وقت سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں سے مذاکرات حکومت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں؟
سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کی آرمی چیف سے ہونے والی ملاقات کے بعد اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات ہو رہے ہیں؟ اگر ہو رہے ہیں تو کس حد تک ہو رہے ہیں، اس حوالے سے سب باتیں ابھی ہوا میں ہی ہو رہی ہیں جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کی جو دیگر سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔اگر تو یہ مذاکرات اور ملاقاتیں کسی گرینڈ الائنس کے لیے ہیں تو تو بہت اچھی بات ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں کا حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس وقت حکومت مضبوط پیروں پر کھڑی ہے اور لگتا نہیں کہ دیگر سیاسی جماعتیں اس نظام کو اس وقت ختم کرنے کے لیے پی ٹی آئی کا ساتھ دیں گی۔
سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی عسکری قیادت سے ملاقاتوں سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق جو خفیہ مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں پاکستان تحریک انصاف کو واضح طور پر بتا یا گیا ہے کہ جو حکومت اس وقت چل رہی ہے اور جو نظام ملک میں رائج ہے یہ اسی طرح چلے گا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس لیے پاکستان تحریک انصاف اس وقت حکومت کو فارغ کر کے حکومت میں نہیں آسکتی۔
انصار عباسی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا خفیہ اور سامنے ہونے والے مذاکرات میں بڑا مطالبہ یہ ہے کہ عمران خان کو رہائی مل جائے، جو دیگر سیاسی رہنما ہیں انھیں بھی رہائی دی جائے اور پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف جو مقدمات درج ہیں، ان کو ختم کیا جائے اور جو پی ٹی آئی پر مشکلات مسلط ہیں ان میں کمی کی جائے۔ تحریک انصاف اس وقت اقتدار میں آنے کے لیے مذاکرات نہیں کر رہی۔
تاہم بعض دیگر مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی بحالی پر حکومتی صفوں میں پریشانی پائی جاتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومتی حلقوں میں اس حوالے سے پائی جانے والی تشویش جائز ہے۔ کیونکہ تمام مشکل فیصلوں کا بوجھ اور ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر اس موقع پر قومی حکومت یا نئی حکومت قائم ہوتی ہے تو ان مشکل فیصلوں کے بعد معاشی بہتری کا پھل آنے والے حکمران کھائیں گے۔
عمران کی فوج سے ریلیف ملنے کی امید پوری کیوں نہیں ہونے والی؟
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین رابطے بحال ہونے کھ بعد سیاسی مذاکرات کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ حکومت نے تحریک انصاف کو مصروف رکھنے کے لیے یہ عمل شروع کیا ہے۔ ویسے بھی حقیقت یہی ہے کہ حکومت کے پاس تحریک انصاف کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ کسی قسم کے فیصلے سے پہلے حکومت کو مقتدرہ کی منظوری لینا ہوگی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کے سامنے اور بیک ڈور مذاکرات صرف اسٹیبشمنٹ ہی کے ساتھ ہوں گے۔