پاکستان میں نئی گاڑیوں کی ڈیلیوری تعطل کا شکار کیوں ہے؟

بڑھتی مہنگائی، ڈالر کی اونچی پرواز کے باعث جہاں پاکستان میں گاڑیوں کے پلانٹس بندش کا شکار ہیں تو وہیں نئی گاڑی کا فوری حصول بھی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، نئی گاڑی کے حصول کیلئے کئی ماہ قبل بکنگ کرانا پڑتی ہے۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر نور عالم خان نے اظہار نارضگی کرتے ہوئے کار مینوفیکچرنگ کی اجارہ داری ختم کرنا ہوگی، اسلام آباد میں ہونے والے پی اے سی کے اجلاس میں کار مینوفیکچرز کے نمائندوں کی عدم شرکت پر بھی برہمی کا اظہار کیا گیا۔آج ہم نے کار مینوفیکچرنگ پر بات کرنا تھی لیکن نہ سربراہان آئے ہیں، نہ جواب دے رہے ہیں اور نہ ہی وہ آڈٹ سے تعاون کر رہے ہیں۔
نور عالم خان نے کار مینوفیچرنگ کمپنیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف بمپرز بنا کر مینوفیکچرر بنے پھر رہے ہیں، اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ کار مینوفیکچرر خود ریگولیٹرز بن چکے ہیں، ان کو صارفین کو کھلے عام لوٹنے کی اجازت ہے۔گاڑیوں میں وہ ٹیکنالوجی استعمال ہی نہیں ہو رہی جو دنیا میں ہو رہی ہے۔
نور عالم خان نے بتایا کہ ان کے کار مینوفیچرنگ کے حوالے سے کچھ تحفطات تھے، انہیں رکن اسمبلی کی حیثیت سے بلایا لیکن اس پر معذرت خواہ ہوں۔ کار مینوفیکچرنگ کے شعبے سے اجارہ داری کو ختم کیا جائے، گاڑیوں والوں نے لوگوں سے آٹھ سال سے ایڈوانس پیسے لے رکھے ہیں۔
ایل سیز کا معاملہ تو آٹھ ماہ سے چل رہا ہے، لوگوں سے ایڈوانس کروڑوں روپے لے لیے، اب یہ ان سے اور پیسے مانگ رہے ہیں، چیئرمین پی اے سی نے کار اسمبلرز کمپنیوں کے سربراہان کو طلب کر لیا ہے، دوسری جانب پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ آڈٹ کا نہیں ہے تاہم ہم آڈٹ حکام سے تعاون کر رہے ہیں۔
پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل عبدالوحید شیخ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے آڈٹ حکام سے میٹنگ کے لیے رابطہ کیا لیکن وہ آئے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہاں حکومت کے ٹیکس کے نقصان کا معاملہ نہیں ہے۔ آڈٹ تو سرکار کے ٹیکس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں حکومت کا کوئی نقصان نہیں ہو رہا۔ ہم تو ان لوگوں کو بھی پیسے دیتے ہیں جن کی گاڑیوں کی ڈیلیوری تاخیر سے ہوتی ہے۔‘
’اگر مارکیٹ اکانومی میں اگر کوئی شخص مخصوص وقت کے لیے پیسہ لگاتا ہے تو یہ اس کی مرضی سے ہوتا ہے۔ مطلوبہ وقت میں آرڈر نہ ملے تو ہم اسے کائیبور پلس تین فیصد ادا کرتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’آج کل تو ڈیمانڈ بھی کم ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ گاڑیاں تاخیر سے مل رہی ہیں، درست نہیں ہے۔ آج کل ہم لوگوں کو ڈسکاؤنٹ پر گاڑیاں بیچ رہے ہیں۔‘
چیئرمین پی اے سی نور عالم خان کی جانب سے اجلاس میں صرف بمپرز بنانے کی بات پر ان کا کہنا تھا کہ ’بمپرز بنا کر مینوفیکچرزز بننے کی بات کم علمی پر مبنی ہے۔ پتا نہیں انہیں یہ معلومات کس نے دیں۔ میں اس پر کیا کہوں۔ اس وقت اڑھائی تین ہزار وینڈرز ہیں جو مختلف آلات بنا رہے ہیں۔‘
انہوں نے پاکستان میں کاریں بنانے والی بڑی کمپنیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے ماہ ہنڈا کی ایک بھی گاڑی فروخت نہیں ہوئی۔ سوزوکی بند پڑا ہے اور انڈس موٹرز اور دیگر کا بھی یہی حال ہے۔‘
’نچلی سطح پر کام کرنے والے ہزاروں افراد کی نوکریاں ختم ہو چکی لیکن یہ کہتے ہیں کہ گاڑیاں نہیں مل رہیں۔ جو اس وقت ملک کے حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔‘
آٹوموٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل نے مزید بتایا کہ لگ بھگ ایک برس سے امپورٹ بھی بند ہے۔ ایل سیز نہیں کھل رہیں۔ زرمبادلہ کی کمی کے باعث ہم باہر سے بھی کچھ نہیں منگوا سکتے۔
ملک کی دِگرگوں معاشی صورتحال میں کاریں فروخت کرنے والی نمایاں کمپنیوں سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا کی ڈیمانڈ میں کمی بھی دیکھی جا رہی ہے۔
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ایچ ایم شہزاد کا موقف بالکل برعکس ہے جنھوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’یہاں کوئی مینوفیکچرنگ پلانٹ نہیں ہے۔ یہ چین، جاپان اور دیگر ملکوں سے پرزے منگوا کر کام چلاتے ہیں، یہ بھی درست نہیں کہ یہاں کوئی مقامی وینڈرز ہیں، ایک آٹھ بائے آٹھ کے کمرے میں بیٹھ کر میڈ اِن پاکستان کا سٹیکر پرزوں پر لگانے والے کو کیسے وینڈر کہا جا سکتا ہے۔
ایچ ایم شہزاد نے سوال اٹھایا کہ ’اگر بالفرض ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ انہیں پرزے نہیں مل رہے تو پچھلے چھ ماہ میں انہوں نے گاڑیوں کی کئی مرتبہ قیمیتیں کیوں بڑھائی ہیں۔ جب گاڑی بن ہی نہیں رہی تو قیمت میں اضافہ کیوں کیا گیا، ان کے مطابق اگر اس ملک میں آٹو موبائل انڈسٹری کا وجود ہوتا تو صورت حال بالکل مختلف ہوتی۔

Related Articles

Back to top button