ڈیجیٹل کرنسی کا بزنس پاکستان کے لیے فائدہ مند کیوں ہے

امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے متعدد ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹل کرنسی کو اپنایا جا رہا ہے، برطانیہ میں تو اسے ٹیکس نیٹ میں بھی شامل کر لیا گیا ہے، ایسے میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں بھی ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال کو قانونی قرار دے دیا جائے تو یہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی حکومت ڈیجیٹل کرنسی سے پابندی اٹھا کر اس کا باقاعدہ ٹریڈنگ پلیٹ فارم بنائے تو موجودہ معاشی مشکلات میں فوری کمی ممکن ہو سکتی ہے کیونکہ یہ فیصلہ ریوینیو اکٹھا کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ایک رپورٹ کے مطابق 16 فیصد سے زائد امریکیوں نے کسی نہ کسی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جبکہ 100 سے زائد ممالک کے مرکزی بینک اپنی ڈیجیٹل کرنسی شروع کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں کرپٹو کرنسی کو نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہے بلکہ کرپٹو کرنسی رکھنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں بھی لایا جا چکا ہے۔ چین نے 2021 میں کرپٹو کرنسی میں کاروبار، مائننگ اور ٹریڈنگ پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی، لیکن معاشی ماہرین کے مطابق ڈیجیٹل کرنسی اب بحران سے نکل آئی ہے اور اس کی ویلیو میں واضح اضافے کی توقع ہے۔
اسلام آباد میں ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار سے منسلک محمد نبیل کے مطابق پاکستانی حکومت کو ڈیجیٹل کرنسی سے پابندی اٹھا کر اس کی ٹریڈنگ کی اجازت دے دینی چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر پاکستان نے بروقت فیصلے نہ کیے اور ڈیجیٹل کرنسی کو اپنانے کے لیے فوری قانون سازی نہ کی تو وقت گزر جائے گا اور ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ ڈیجیٹل یا کرپٹو کرنسی الیکٹرانک شکل میں دستیاب ایسی کرنسی کو کہتے ہیں جو کاغذی حیثیت نہ رکھتی ہو، یہاں ڈیجیٹل اور کرپٹو کرنسی میں بھی فرق واضح رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ریاستی بینک کی جانب سے جاری کردہ ایسی کرنسی جو کاغذی شکل نہ رکھتی ہو اسے ڈیجیٹل کرنسی قرار دیا جا سکتا ہے البتہ کرپٹو کرنسی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈیجیٹل ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بھی مرکزی ادارے کے کنٹرول سے باہر ہو۔ گو کہ کرپٹو کو مستقبل کی کرنسی کہا جاتا ہے، مگر اس کے حوالے سے قوانین کی عدم موجودگی، پابندیوں اور مارکیٹ کا عدم استحکام کچھ ایسے عوامل ہیں جس پر کچھ ماہرین کو ہمیشہ تحفظات رہے ہیں، دنیا میں صرف بنگلہ دیش، چین، الجیریا، بولیویا، کولمبیا، مصر، انڈونیشیا جیسی ریاستیں ہیں جہاں ان کرنسیوں کے کاروبار پر پابندی ہے لیکن پابندی لگانے والے ان ممالک میں بھی مرکزی بینک کی اجارہ داری والی ڈیجیٹل کرنسیاں لانچ کرنے پر کام ہو رہا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق جب تک اس مارکیٹ سے متعلق مہارت حاصل نہ ہو جائے اس میں سرمایہ کاری مالی نقصان کا باعث بن سکتی ہے، ڈیجیٹل کرنسی کے ماہر مزمل فرقان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے دو آپشنز ہیں، ایک تو آپ کاروبار کریں، یعنی مارکیٹ میں جو کرنسی یا کوائن اچھا لگے اسی پر سرمایہ کاری کریں، اس کام کے لیے مزمل خود بھی ’بائنینس‘ کا پلیٹ فارم استعمال کرتے رہے ہیں اور دیگر لوگوں کو بھی اسی پلیٹ فارم کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سرمایہ کاری کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کو کسی کرنسی یا کوائن کے حوالے سے مکمل معلومات ہوں، جس کے نتیجے میں آپ اس کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں۔ مثلاً اگر آپ بٹ کوائن کے حوالے سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ کب اس کی ویلیو اوپر جائے گی، ایسی صورت میں آپ اسکی مارکیٹنگ بھی کریں گے اور سرمایہ کاری بھی۔
کوئی بھی کوائن یا ڈیجیٹل کرنسی جب لانچ ہوتی ہے تو اس کے پیچھے ایک مکمل کاروبار ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ ترقی کرتی ہے۔ دنیا کی بڑی ڈیجیٹل کرنسیوں میں بٹ کوائن اس وقت 40 فیصد مارکیٹ شیئر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، اس کے ایک کوائن یا سکے کی مالیت 20 ہزار امریکی ڈالرز کے قریب ہے، بٹ کوائن کے بعد ایتھیریم ہے اور پھر تیسرے نمبر پر یو ایس ڈی ٹی ہے جس میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ مزمل فرقان نے متعدد ڈیجیٹل کرنسیوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین برس سے وہ کچھ خاص کرنسیوں میں سرمایہ کاری کر رہے تھے، لیکن وہ اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک یا دو مخصوص کرنسیوں میں سرمایہ کاری تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہر نئی کرنسی کو لانچ کرنے کے پیچھے کچھ بڑے سرمایہ کار موجود ہوتے ہیں، جنہیں مارکیٹنگ کی زبان میں ’وہیل‘ کہا جاتا ہے۔ جب کسی کرنسی میں بڑے سرمایہ کار مسلسل سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس کی ویلیو میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کی سرمایہ کاری کے باعث جب کوئی کرنسی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے تو ایسے میں بڑے سرمایہ کار اپنی رقم انتہائی منافع کے ساتھ نکال لیتے ہیں۔ یوں کرنسی گر کر ڈی ویلیو ہو جاتی ہے اور نئے سرمایہ کار دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ مزمل فرقان کا کہنا تھا کہ وہ سرمایہ کاروں کو ایک خاص کرنسی پر انحصار کرنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ پھر آپ ان کے نقصان کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں۔