کیا نواز شریف اپنی عمر بھر کی سیاسی کمائی لٹنے دیں گے؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ نواز شریف کے لیے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے، لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا میاں صاحب اپنی پارٹی اپنی سیاسی جانشین مریم نواز کو سونپ پاتے ہیں یا پھر اپنی عمر بھر کی کمائی اپنی آنکھوں کے سامنے لٹتے ہوئے دیکھیں گے؟

روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں یہ خبر آپ نے بھی بارہا پڑھی ہو گی کہ ایک ڈوبتے ہوئے کو بچانے کی کوشش میں بچانے والا خود دریا بُرد ہو گیا۔ آجکل ہم تواتر سے ایک جملہ سنتے ہیں، کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، ہر چند اس میں ہمارا سیاسی نقصان ہو گیا، یعنی لوگ کنارے آن لگے، اور کنارہ ڈوب گیا، یہ ہے مسلم لیگ نون کا سیاسی بیانیہ۔ حماد کے مطابق یہ کسی بے لوث رفاہی ادارے کے اغراض و مقاصد تو ہو سکتے ہیں، لیکن کسی سیاسی جماعت کے نہیں، حکومت سنبھالنے کا فیصلہ سراسر سیاسی تھا، اور نواز شریف نے اس کے نقصانات سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا لیکن شہبازشریف نے وزیر اعظم بننے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی ایک طُرفہ تماشا ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنی ہی ’امپورٹڈ حکومت‘ کو غیر مقبول کیا اور پھر ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پنجاب حکومت بن کھلے ہی مرجھا گئی، ویسے اس فیصلہ میں کیا لکھا ہے، ہم نہیں جانتے، اس لیے کہ آئین کی شق تریسٹھ اے کی تشریح کا تفصیلی فیصلہ ابھی جاری ہی نہیں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ فیصلے کا اطلاق ماضی سے کر کے پچیس ارکان پنجاب اسمبلی کے ووٹ گنتی میں شامل نہیں کیے گئے، حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کو معلق رکھا گیا، اور پھر وزیر اعلیٰ کے انتخاب کو ضمنی انتخاب سے مشروط کر دیا گیا۔ ایسا بھی عدالتی تاریخ میں شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ اختلاف رائے رکھنے والے دو جج صاحبان نے اپنا مکمل فیصلہ جاری کر دیا ہے، مگر اکثریتی تفصیلی فیصلہ اب بھی جاری نہیں ہوا۔ خلقِ خدا بے چینی سے تفصیلی فیصلے میں وہ دلیل جاننا چاہتی ہے جس کی بنیاد پر بادی النظر میں آئین سے متحارب فیصلہ کیا گیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور پنجاب میں شہباز حکومت کے خاتمے نے حکومت کو اب تک قدم نہیں جمانے دیے، سیاسی بے یقینی نے روپے کو پاتال میں پھینک دیا اور اسٹاک ایکسچینج بھی لڑکھڑانے لگی۔ مگر پھر یوں ہوا کہ حکومت کی عظیم الشان معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرنے لگا، روپیہ سرسبز ہو گیا اور اسٹاک مارکیٹ میں بہار آ گئی۔ ان چار ماہ میں پہلی دفعہ یہ توقع بندھی کہ حکومت معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے اور اب عوام کو مہنگائی کے مزید کچوکے برداشت نہیں کرنے پڑیں گے۔ اس دوران خبریں آنے لگیں کہ حکومت پٹرول کی قیمت کم کر نے والی ہے، مگر پھر ہوا اس کے الٹ۔ پٹرول کی قیمت تقریباً سات روپے فی لٹر بڑھا دی گئی۔ وزیرِ خزانہ سے پوچھا گیا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گری ہے اور آپ نے بڑھا دی، ایسا کیوں؟ انہوں نے جواباً قیمتیں مقرر کرنے کا ایک ایسا انوکھا فارمولا سنایا جسے سن کر یقین آگیا کہ حکومت منشی چلا رہے ہیں سیاستدان نہیں۔مفتاح صاحب کی ذمہ داری لگانی چاہیے کہ وہ ان نو حلقوں میں جائیں جہاں عمران خان ضمنی انتخاب لڑ رہے ہیں اور ایک ایک ووٹر کو یہ مقدس فارمولا حفظ کروا کے ثوابِ دارین حاصل کریں۔

وزیرِ اعظم شعلہ بیاں مقرر نہیں ہیں، اپنے حامیوں کا لہو گرمانا ان کا وصف نہیں ہے، افسانوی تو کیا مبنی بر حقیقت بیانیہ تخلیق کرنا بھی ان کی خوبیوں میں شامل نہیں ، وہ اپنے سیاسی مخالفین پر یلغار کا گُر بھی نہیں جانتے، وہ تو پٹرول ہی سستا کر سکتے تھے، افسوس کہ وہ یہ بھی نہ کر سکے۔شہباز صاحب کسی ٹیکنو کریٹ حکومت کی سربراہی کے لیے انتہائی موزوں امیدوار ہو سکتے ہیں۔

حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ سیاسی حکومت کے سربراہ کا ہر فیصلہ سیاسی ہوتا ہے، خواہ وہ بہ ظاہر معیشت کے میدان میں ہو یا معاشرت کے۔جیسے ناخلف ورثاء اپنے اجداد کی کمائی لٹاتے ہیں، اسی بے رحمی سے نواز شریف کا ووٹ بینک لٹایا جا رہا ہے، اور دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں۔ پاکستان کا ہر مقتدر ادارہ دہائیوں سے نواز شریف کے خلاف ہے، اور اپنی بھرپور کوشش کے باوجود انہیں سیاست سے صرف اس لیے نہیں نکال سکا کہ عوام نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے۔اس نظام میں عوام کے سوا نواز شریف کے پلّے اور ہے ہی کیا؟ مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ میاں صاحب نے پٹرولیم قیمتوں میں حالیہ اضافے کی شدید مخالفت کی اور پھر میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے۔ ذرا غور کیجیے، یہ تو اور بھی آشوب ناک صورت ہے، میاں صاحب نے جب اتنی شدت سے مخالفت کی تو فیصلہ کیسے ہوگیا؟ نواز شریف کی اپنی پارٹی میں یہ پوزیشن ہے؟ اور جب میاں صاحب ناراضی میں میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے تو پھر بھی وزیرِ اعظم نے قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کر لیا؟ میاں صاحب کی برہمی کی یہ قیمت ہے؟ حالت یہ ہے کہ پنجاب کا ضمنی انتخاب ہارنے کے بعد پارٹی کے کئی رہنما کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب کو اب واپس آنا ہو گا، یعنی دوسرے لفظوں میں یہ اقرار کیا جا رہا ہے کہ عمران خان ہمارے بس کا نہیں ہے، میاں صاحب اسلئے یاد آ رہے ہیں کہ وہ آ کر مزید قربانی دیں تاکہ یہ وزرا اگلا الیکشن جیت سکیں۔لوگ تو بڑبڑا رہے ہیں کہ اب ایسالگتا ہے کہ کشمیریوں کی حالت بھی اندر سے ’جٹوں‘ جیسی ہو چکی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بے سروپا مقدمات ختم کروانے کیلئے شہباز حکومت کی مخلصانہ کوششوں کا ابھی تک کوئی جاسوس بھی سُراغ نہیں لگا سکا۔ بہرحال، فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے، دیکھتے ہیں کیا میاں صاحب اپنی پارٹی اپنی سیاسی جانشین کو سونپ پاتے ہیں یا اپنی عمر بھر کی کمائی اپنی آنکھوں کے سامنے لٹتے ہوئے دیکھتے ہیں؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔

Related Articles

Back to top button